انسانی زندگی کا دُور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کی زندگی میں دو جذبات بنیادی طور پر نظر آتے ہیں ۔ پہلا خوشی اور دوسرا غم ۔ جب انسان خوش ہوتا ہے تو اسے سب اچھا حشاش بشاش معلوم ہوتا ہے ۔ اسے ہر نغمہ سریلہ معلوم ہوتا ہے ۔ اسے ہر بات بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ ہر چیز میں وہ اچھائے کو ڈھونڈرہا ہوتا ۔ لیکن پھر آتی ہے اداسی کی ایک لہر جس میں انسان خاموش ہو جاتا ہے ۔ سب کچھ عجیب معلوم ہونے لگتا ہے ۔ ذہنی الجھنیں گھیرلیتی ہیں ۔ ہر نغمہ بے سُرا لگنے لگتا ہے ۔ ہر بات میں وہ منفی پہلو نکالنے لگتا ہے ۔ اور حد تو یہ ہے کہ وہ زندگی سے ہی بیزا ہونے لگتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ڈپریشن میں مبتلا ہیں ۔ مگر اتنی ہی کثیر تعداد ان لوگوں کی بھی ہے کہ جنھیں ڈپریشن کا علم نہیں بس انھوں نے اپنے اوپر چسپاں کر رکھا ہے کہ ہم ڈپریسڈ ہیں ۔ ڈپریشن کو جاننا بہت ضروری ہے ہر وقت کی غم و اداسی ڈپریشن نہیں ۔ انسان کی زندگی غم و خوشی کا مجموعہ ہے کبھی خوشی ہوگی تو کبھی غم کے پہاڑ ۔۔۔ مگر ڈپریشن اس سے کچھ اوپر کی چیز ہے ایسا غم کہ جس میں انسان اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنے لگے ۔ اس کا کسی چیز میں دل نہ لگے ۔ اس کی نیند متاثر ہونے لگے ۔ کھانا کھانا اس کے لیے دشوار ہوتا چلا جائے ۔ ذہنی تناؤ بڑھتا چلا جائے ۔ جو شخص ان چیزوں میں کئین ہفتوں اور مہینوں میں مبتلا ہے ، وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ ڈپریسڈ ہے ۔ ایک دن یا چند دن کی اداسی بلکل نارمل ہے اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔
اگر ہم تاریخ کا معائنہ کریں تو ہر زمانے میں ڈپریشن رہا ہے مگر دورِ جدید میں اس کی تعداد میں بحد اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ جدید سہولیات اور آسانیوں سے تو انسان کو ذہنی اور جسمانی سکون حاصل ہونا چاہیے تھا مگر یہ کیا ہوا کہ انسان اپنی ہی موت آپ بن رہا ہے ۔ آج کا انسان لوگوں سے گہرا ہوا ہے پر پھر بھی اکیلا ہے ۔ نفسا نفسی کا ماحول ہے ۔ مطلب پرستی انتہا کی ہے کہ انسان کا اس دنیا میں جینا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے ۔ سب ظاہری چمک دمک میں اتنا پڑ گائے ہیں کہ اپنی روح کو وہ بھول چکے ہیں کہ اس کی ضرورتیں کیا ہیں ۔
ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض سے نکلنے کے لیے اجتماعی حل تو یہ ہے کہ اس دنیا کی دوڑ میں اپنوں کو نہ بھول جایا کریں ۔ آپ کے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہوا کرتے ہیں کہ جو اس الجھاؤ کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا چاہیے ان کی الجھن کے بارے میں ان سے بات کرنا چاہیے ۔ آپ کے کانوں سے شاید کسی کو امید مل جائے۔ آپ کے چند اچھے بول سے کسی کی زندگی سنور جائے ۔ لہذا اپنے بارے میں سوچنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں بھی سوچیں ۔ ایسے لوگوں سے بات کریں ، انھیں بس اپنے کان دے دیں اور اس حالت سے نکلنے میں ان کی مدد کریں ۔
انفرادی سطح میں فرد کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ اکیلا نہیں ۔ اس کے ساتھ وہ ذات منسلک ہے جو پوری کائنات کا مالک ہے اور قادر مطلق ہے ۔ اس پر اپنے یقین کو مستحکم کرے ۔ اور اس سے اپنی ہر چیز شئیر کرے ۔ اسے اپنے دکھ بتائے ۔ وہ ہر چیز کا سلجھانے والاہے ۔ دوسرا اپنے اور پر یقین رکھے ۔ اپنے آپ کو کمتر ہر گز نہ جانے ۔وقت کی ریل پیل میں یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے ۔ مگر اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ سب ختم ۔۔۔! بلکہ ہر زوال کا عروج ہے ۔ تو لہذا غم نہ کریں ۔ بلکہ اللہ سے دعا کریں اور اپنے آپ پر یقین رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خود کھڑا کریں اور چلیں اس دنیا سے آنکھیں ملائیں ۔ اور اپنے قدم جمائیں ۔