” پرہیزعلاج سے بہتر ہے "
یہ ایک پرانی کہاوت ہے جو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہر اانسان کو سننے کو ملتی ہے ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے؟ اس محاورے کو حصوں میں توڑ کر ہمیں دو مخصوص الفاظ ملتے ہیں۔ پہلا حصہ احتیاط و پرہیز یعنی "روک تھام” ہے جس کا مطلب ہے کسی ایسی چیز سے دور رہنا جو ہمارے لیے نقصان دہ ہو۔ اور ضرب المثل کا دوسرا حصہ "علاج” ہے جس کا مطلب ہے اس نقصان دہ چیز کی تشخیص کے بعد اس کے خاتمہ کے لیے علاج کرنا۔
روزمرہ زندگی کے مشاہدات اور تجربات کی بناء پریہ ثابت ہو چکا ہے کہ سابقہ بعد والے حصے سے بہتر ہے۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کی متعدد وجوہات بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس تصور کو زندگی کے بہت سے شعبوں میں لاگو کر سکتے ہیں جیسے کہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت، معاشی ڈومین، دوسروں کے ساتھ روزمرہ تعلقات وغیرہ۔
مثال کے طور پر اگر ہم جسمانی صحت کے بارے میں بات کریں تو چند سال قبل ایک وبائی مہلک بیماری بہت بڑا مسلہ بنی رہی ۔ ان دنوں ہمیں جس وائرس سے نمٹنا تھا اس کی کوئی ویکسین یا دوا نہیں تھی ، جس کو روکنے کے لیے ڈاکٹروں کی طرف سے واحد علاج "پرہیز” تھا۔ کوئی بھی معیاری آپریٹنگ طریقہ کار اس مشکل میں کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ اس دورِ آفت میں اگر ہم احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرتے تو ہمیں کڑے منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا۔ لہٰذا اس تشویشناک صورتحال میں صرف پرہیز ہی واحد حل تھا۔
اسی طرح دماغی صحت کا معاملہ ہے جو عہد حاضر میں سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر ایک کی زندگی میں ایک نامعلوم اضطراب گھر کرچکا ہے، ہر کوئی بے چین ہے اور ذہنی سکون کی جستجو میں ہے۔ انسان کو اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے جو کہ کھانے پینے کی عادات، سونے کے انداز کا خیال رکھ کر اور اپنے عزیزواقارب اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ممکن ہے ۔ یہ سب عادات احتیاطی رویہ کی مرہون منت ہیں۔ کیونکہ احتیاط اور پرہیز دراصل اچھی صحت اور تندرستی کے لیے بے حد ضروری ہیں – جو ہر ذی روح کو ایک کو اچھی زندگی گزارنے میں مددگار ہیں۔۔ خصوصاً ذہنی صحت کے لیے ہر انسان کو اپنے دوستوں ، یاروں اور ساتھیوں کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ کیونکہ اگر آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ گھوم رہے ہیں جو آپ کو ذہنی مریض بنا رہا ہے، اور آپ کو اس کا علم بھی ہے ، اس کے باوجود آپ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کوئی احتیاطی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں تو نتیجتاً آپ کو بہت بڑا نقصان اٹھانا ہوگا۔ اور اس وقت بطور علاج اٹھایا گیا ہر قدم بے سود ثابت ہوگا .سچ پوچھیں تومنفی سوچ کے حامل لوگوں سے نمٹنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے مگر ہر انسان کو اس بات کا علم و شعور ضرور ہونا چاہیے ایسے لوگوں سے کب تعلقات منقطع کرنا لازم ہے۔ ایسے منافق اور دغا بازلوگوں کے بارے میں ایک مشہور قول ہے جو واقعتاً ان کی تمام خصوصیات پر کھرا اترتا ہے۔
"منفی سوچ کے حامل لوگوں کو جانے دو۔ وہ صرف شکایات، مسائل، تباہ کن کہانیاں، خوف اور دوسروں کے بارے میں فیصلہ سناتے ہیں۔ اگر کوئی اپنا سارا غبار اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے ڈبے کی تلاش میں ہے، تو یقینی بنائیں کہ یہ آپ کا ذہن وہ ڈبہ نہیں ہے۔”
جو شخص آپ کی اچھائی یا آپ کے نرم لہجہ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ، اس سے قطع تعلق کرنا آپ کو برا انسان نہیں بناتا ۔اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کی قدر کر رہے ہیں،اپنی صحت اور اپنی ذات کی دیکھ بھال کے لیے احتیاطی اقدام اٹھا رہے ہیں۔ اگر ان تمام باتوں کا خیال رکھا جائے اور علاج کے بجائے احتیاط پر اکتفا کیا جائے تو یقیناً بعد میں پیش آنے والے کسی بھی سنگین نقصان کو روکا جاسکتا ہے ۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ علاج کے بعد شفا یابی ایک زیادہ کٹھن اور وقت طلب عمل ہے
۔اسی طرح اگر ہم معاشی معاملات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کاروبار اور دیگر مالی معاملات کے دوران بھی،احتیاط ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اگر کوئی اضافی اخراجات پر قابو نہیں پاتا یا فضول اخراجات میں پیسہ برباد کرتا رہتا ہے تو وہ کاروبار میں بھاری گھاٹا اٹھائے گا ۔ یوں ہی زندگی میں مختلف مثالوں کے ذریعے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ احتیاط ہمیشہ سے ایک بہترین منصوبہ بندی رہی ہے۔ یقیناً علاج ایک حل ہے لیکن مثالی طور پر یہ کبھی تجویز نہیں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اپنی زندگی میں یہ یقینی بنائیں کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں احتیاط و پرہیز کو اپنا شعار بنائیں گے تاکہ علاج کی نوبت کبھی نہ آئے۔