شوبز کی دنیا جس کی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ، برق رفتارذندگیوں اور دوسروں سے سبقت لے جانے کے درپہ ہوتی ہے۔ ہماری انٹرٹیمنٹ انڈسٹری ابتدا سے ہی کئی انتشارات میں گری رہی ہے ۔جہاں اکثر ایسے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں جو اخلاقیات کے لیے ٹھیس تھیں۔ ماہرین ادب نے بارہا نشاندہی کی کہ اس طرح کے فن سے ہمارا معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو رہا ہے۔ آئے دن تنقید اور طنز کی گرفت میں رہنے والی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کافی عرصہ زوال پزیر رہی۔ جہاں کئی سال کوئی خاص پروجیکٹ تخلیق نہیں کیا گیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سنبھال پیدا ہوا اور انڈسٹری نے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع کیا۔ موجودہ دور میں پاکستانی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری ایسے ایسے پروجیکٹ ناظرین کے سامنے پیش کر رہی ہے جن سے ناظرین ایک طرف تو لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسری طرف کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق بھی ملتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ڈرامہ کی بات کی جائے تو حال ہی میں ایک ڈرامہ "کابلی پلاو” نشر کیا گیا جسے ناظرین کی بڑی تعداد نے سراہا۔ اس کہانی میں مرکزی افغان مہاجر باربینہ کا کردار اداکارہ سبینہ فاروق نے ادا کیا جسے لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ اس ڈرامے کی کہانی ایک افغان پناہ گزین لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے ملک میں خراب حالات کی وجہ سے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آجاتی ہے۔ اس ڈرامے کی دلچسب اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں افغان مہاجرین کی بے بسی کو ایک نئے انداز میں دکھایا گیا ہے جبکہ پاکستانی کلچر سے ان کی ناواقفیت پر بھی بات کی گئی ہے۔ ڈرامے میں پشتو زبان بھی استعمال کی گئی ہے۔مجموعی طور پر اس ڈرامے کو ناظرین کی جانب سے بے پناہ پزیرائی حاصل ہوئی ہے اور کہیں نہ کہیں لوگوں میں افغان مہاجرین کے متعلق وسعت قلب بھی پیدا ہوئی ہوگی۔
اسی طرح ایک اور ڈرامہ "حادثہ” جسے اگر ڈرامہ انڈسٹری کی جرات مندانہ کاوش کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔۔کیونکہ یہ ڈرامہ اپنے ہی معاشرے کا ایک غلیظ پہلو لے کر منظر عام پر آیا جسے کئی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا مگر اس نے اپنی جگہ بنا ہی لی اور ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس ڈرامہ کا مرکزی کردار اداکارہ حدیقہ کیانی نے نبھایا۔ یہ کہانی حقیقی دنیا کے سانحہ سے ماخوذ ہے۔یہ جنسی زیادتی کا شکار ہوئی ایک ماں کی کہانی ہے جس کے پیش نظر اس کی ازداجی زندگی کی تباہی اور اس کے بچوں کے ذہنی انتشار ، خاندانی مخالفت اور معاشرتی رویوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ جو کہ ہمارے ناروا معاشرے کے منہ پر تھپڑ کی طرح ہے۔ اس ڈرامہ کو کئی بندشوں کا سامنا رہا مگر اسے کامیابی کے ساتھ ناظرین تک لایا گیا جو اس کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسی طرح اگر فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ قبل ایک معروف و مقبول فلم "مولا جٹ ” کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا۔اس فلم کے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم اب تک ملک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی پنجابی فلم بن گئی ہے۔ اس فلم نے چار ہفتے کے دورانیہ میں سات اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر کمائے۔ اس فلم کو مختلف جگہوں پر پانچ سو سے زائد اسکرینوں کے ساتھ ریلیز کیا گیا تھا ، جو اسے پاکستان سے باہر آنے والی سب سے بڑی ریلیز میں سے ایک بناتا ہے۔ یہ فلم حال ہی میں فرانس میں بھی ریلیز ہوئی ہے اور اس مارکیٹ میں بھی پزیرائی کی حامل ہے۔ یہ بات حقیقتا قابل ستائش ہے کہ پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری بدلتے وقت کے ساتھ قدم ملانے کی کامیاب کوشش کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ لکھاریوں کی انتھک محنت اور اداکاروں کے بے مثال اداکاری سے ہی کوئی بھی عمدہ پروجیکٹ تخلیق ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں اس نگری کو عمدہ اداکاروں اور لکھاریوں کا سہارا مل گیا ہے جو اسے بخوبی منزل تک لے جانے کا خاصا رکھتے ہیں۔