عہد حاضر کی برق رفتار ترقی میں پانچویں جنریشن کی ٹیکنالوجی کا اضافہ ایک بہت بڑا قدم ہے جس کے مثبت اثرات بے شمار ہیں۔ فور تھ جی کے بعد ایک نیا عالمی وائر لیس اسٹینڈرڈ ہے جوکہ ٹیکنالوجی کا ایک بڑا شاہکار ہے۔ فائیو جی موبائل نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن ہے جسے عملی طور پر باقی تمام جنریشنز سے زیادہ مؤثر اور فائدہ مند بنایا گیا ہے۔ اور اسے نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی پر سب سے پہلے ہواوے کمپنی کی جانب سے کام شروع کیا گیا یہی وجہ ہے کہ ہواوے کو فائیو جی کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اور سب سے قبل ہواوے نے ہی اس کے انفراسٹرکچر کے لیے مینوفیکچرنگ انڈسٹریز بنائیں ۔ بعد میں کافی دوسری کمپنیوں نے بھی انویسٹ کرنا شروع کردیا۔ وائرلیس کمیونیکیشن کی دنیا میں فائیو جی اس وقت کی سب سے زیادہ مقبول ومعروف جنریشن ہے۔
ون جی سے لے کر فائیو جی تک کا سفر یوں تو بہت تیزی سے طے ہوگیا ہے لیکن خاص بات یہ کہ فائیو جی میں پہلی تمام جنریشنز کی خصوصیات بھی شامل کی گئی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نئی خصوصیات بھی ، جو اس جنریشن کو منفرد بناتی ہیں ۔ مثلاً پہلی جنریشن میں صرف وائس کال ہی ممکن تھی جس میں اینالوگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ پھر جیسے جیسے جنریشنز بدلتی گئیں، ٹیکنالوجی کا معیار مزید بڑھتا گیا اور فور جی ٹیکنالوجی تک آتے آتے ہم وڈیو کالز کی سہولت سے بہرہ ور ہوچکے تھے۔ باقی تمام جنریشنز سے بہتر فور جی ہے مگر فائیو جی میں ایسی کئی خصوصیات ہیں جو اسے مزید آگے کی چیز بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر فور جی میں ایک ایچ ڈی مووی ڈاؤنلوڈ کرنے لیے تقریباً دس منٹ کا وقت درکار ہے جبکہ وہی مووی فائیو جی میں ایک سیکنڈ کے بعد ہی ڈاؤنلوڈ کرنے کی قابلیت موجود ہے۔ فائیو جی نیٹ ورک میں بہترانٹرنیٹ کی رفتار، کم تاخیر اور ایک ساتھ بہت سے آلات کا استعمال شامل ہے ۔ یہ بہت سے آلات کو ایک ساتھ جوڑ کر استعمال کرنے کے قابل ہے ۔ مثلاً لیپ ٹاپ یا گھر کے سمارٹ آلات کو ایک راؤٹر کے زریعہ جوڑ کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فائیو جی میں 100GB فی سیکنڈ کی رفتار تک پہنچنے کی امید کا اظہار کیا گیا ہے۔ کیونکہ فی الحال فائیو جی کی رفتار 500MB فی سیکنڈ سے لے کر 2GB فی سیکنڈ کے درمیان ہے جوکہ ابھی بھی کافی زیادہ مانی جاتی ہے۔ مگر ابھی یہ فائیو جی کی تیزترین رفتار کے آس پاس بھی نہیں پہنچی ۔
اسی طرح فور جی میں کئی ایسے مسائل تھے جس سے صارفین تنگی کا شکار ہوتے تھے مثلاً مسلسل وڈیوز شئیر کرنے پر انٹرنیٹ ٹریفک زیادہ ہوجانا اور پھر موبائل فون کا ہینڈل نہ کرپانا عموماً صارفین کے لیے الجھن پیدا کرتا ہے مگر فائیو جی ان تمام مسائل کے حل کی اہل ہے ۔اسی طرح گیمزکھیلتے وقت خلل یعنی لیگنگ یا فریم ڈراپ کی مصیبت سے نجات مل جائے گی۔ اس سے پوری دنیا میں جدیدیت میں اضافہ ہوگا اور کمپیوٹرائز یا روبوٹک سرجری بھی ممکن ہوجائے گی۔ پاکستان میں ابھی فائیو جی کی سہولت میسر نہیں ہے کیونکہ اس کی لیے درکار مہنگے سیٹس ، انفراسٹرکچر کی کمی اورفورجی کا تاحال محدود پھیلاؤ فائیو جی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے کئی بار فائیوجی ٹیکنالوجی عام کرنے کے دعوے کیے گئے ہیں مگر ابھی تک ان پر کوئی موزوں عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ زرائع کے مطابق پاکستان کے دس فیصد افراد ابھی بھی ہر قسم کی ٹیلی کام سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے فائیوجی پر اربوں روپے خرچ کرنے سے قبل فی الوقت ترجیح ہر پاکستانی تک تیز ترین فورجی پہنچانے پر توجہ ہونی چاہئیے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہی فائیوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ مند ہوسکتے ہیں کیونکہ مالی لحاظ سے صرف ایک فیصد افراد ہی فائیو جی ہینڈسیٹ خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔تو پھر اس ٹیکنالوجی پر بھاری لاگت خرچ کرنے کی بجائے ایسے زرائع کمیونیکیشن کے لیے کوشش کی جائے جو ہر شخص کی دسترس میں باآسانی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ابھی بھی ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کوئی بڑی پیشئن گوئی نہیں کی گئی مگر اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ رواں سال جولائی میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جائے گا ۔ لیکن فی الحال فائیو جی ٹیکنالوجی کا استعمال ممکن نہیں نظر آرہا ۔