موسم سرما کے شروع ہوتے ہی پاکستان میں شادی سیزن کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ہر طرف شادیوں کی گہماگہمی نظر آنے لگتی ہے۔ ڈھول ، بینڈ باجے، لاوڈ میوزک ، جگمگاتی روشنیاں ، رنگ برنگ کھانوں کی خوشبوئیں ، گلی محلوں میں پھیلی ہوئی رونقیں بہت پرکشش معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ بازاروں میں بھی چیزوں کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جتنی ذیادہ برادریاں ہوتی ہیں ، اتنی ہی رسوم و رواج اور کئی اقسام کی روایات شادی سے منسلک ہوجاتی ہیں۔ لیکن ایک دلچسب عنصر یہ بھی ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی پر اخراجات کی لمبی چوڑی فہرست بنا لیتے ہیں جن میں سے اکثر غیرضروری اخراجات ہوتے ہیں۔ اولاد کی شادی کی منصوبہ بندی لمبے عرصے تک کی جاتی ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگ تو بڑی مشکل سے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ پاتے ہیں تو وہیں بعض ایسے طبقے ہوتے ہیں جو شادی پر پیسہ واقعی ہاتھ کی میل سمجھ کر اڑاتے ہیں۔
شادی کی تمام ضروری اور غیر ضروری رسومات پر اندھا دھند پیسہ خرچ کرنا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی لازمی جز نہیں ہے۔ امیر طبقے کے شوق کی قیمت غریب طبقہ کی عزت نفس کو چکانا پڑتی ہے۔ مہنگے ملبوسات ، بھاری زیور ، پالکیاں اور شاندار فوٹو شوٹس امیروں کے شوق کی چھوٹی سی جھلک ہوتی ہے۔ اور پھرایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سبھی اسی ڈگر چل پڑتے ہیں۔ شادی پر دوسروں سے الگ اور پر کشش دکھنے کی کوشش میں نت نئی رسوم پر پیسہ خرچ کرنا عام ہوتا جارہا ہے۔ اس سب میں وہ طبقہ پس رہا ہے جو واقعی شادی کو اہم فریضہ سمجھ کر صرف ضروری اخراجات ہی پورے کر سکتا ہے۔ معاشرے میں چلتے کئی ٹرینڈز کی وجہ سے ان کے لیے کم پیسوں میں شادی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب ماں باپ اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ سجاوٹ سے لے کر لباس ، کھانے ، زیوارات اور تخائف جیسی غیرضروری رسومات کی وجہ سے شادی جیسے اہم فریضہ کو مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔
رواں سال شادی سیزن کے آغاز کے ساتھ ہی بازاروں میں قیمتیں متواتر تبدیل ہوتی رہیں۔ سجاوٹ کی بات کی جائے تو پھولوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ اور مانگ بڑھتے ہی منافع خور مافیا پھولوں کی قیمتیں بھی بڑھا دیتا ہے۔ اسٹیج کی سجاوٹ کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی سجاوٹ پر لاکھوں روپے کی لاگت آتی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پشاور سروے میں شادی سیزن آتے ہی پھولوں کی قیمت میں پانچ سو فیصد تک اضافہ کردیا گیا۔ گاڑی کی سجاوٹ کے لیے چار ہزار سے لے کر چالیس ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ دلہن کے کمرے کی سجاوٹ ، پھولوں کے ہار، اور اسٹیج کی سجاوٹ کے ریٹ لاکھوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اور یہ مہنگائی پھولوں سے وابستہ تاجروں کی خودساختہ ہے۔
پھولوں کے علاوہ اگر ملبوسات کی بات کی جائے تو عام طور پر شادی پر پہنے جانے والے لباس مہنگے داموں خریدے جاتے ہیں۔ عروسی جوڑے کی قیمت ایک لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور اس سے آگے کوئی حد نہیں۔ لاکھوں کی مالیت کے یہ جوڑے صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈہ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عروسی زیورات بھی خاصے مہنگے ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں سونے کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس شادی سیزن میں فی تولہ سونا مہنگے ترین ریٹ پر پہنچ چکا ہے۔ آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق فی تولہ سونا کا بھاو لگ بھگ 2 لاکھ تئیس ہزار چھ سو روپے ہو چکا ہے۔ اس تناسب سے تو شادیوں پر صرف زیوارت کی لاگت کا اندازہ لگانے سے پتا چلتا ہے کہ کتنا پیسہ صرف زیوارت پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانوں پر اخراجات کا بھی یہی حال ہے۔ پنجاب بھر میں ون ڈش کا قانون بنایا گیا تھا مگر لوگ اس کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں چوکتے اور شادیوں پر مختلف انواع و اقسام کے کھانوں کے دسترخوان سجائے جاتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پنجاب بھر میں شادی ایکٹ ون ڈش کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون ہوئے۔ لاہور، راولپنڈی اور دیگر اضلاع کے درجنوں شادی ہالوں پر چھاپے مارے گئے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو 25 لاکھ روپے سے زائد کے جرمانے ہوئے جبکہ 15 ہال بھی سیل کر دیئے گئے۔ شادی کے موقع پر اس طرح کے تلخ تجربات سے گزرنا اپنے آپ میں ایک آزمائش ہے۔
یہ فضول نمائش اور دکھاوا صرف اور صرف ذہنی بوجھ اور مالی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ شادی ایک اہم فریضہ ہے ، انتہائی ضروری اخراجات کو پورا کوتے ہوئے بھی یہ فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ غیر ضروری رسومات اور روایات کا ہماری اسلامی تہذیب سے بھی کوئی تعلق نہیں ، ان کو جتنا جلدی ترک کر دیا جائے ہمارے لیے بہتر ہے۔ شادی کے موقع پر کسی بھی قسم کے ہنگامے اور تلخیوں سے بچنے کے لیے چند اقدامات کو ملخوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے مالی بجٹ تیار کر لیا جائے۔اس میں تمام پروگرام ، مہمانوں کی آمدورفت اور باقی تمام ضروری اخراجات کا اندازا حساب لگا لینا بہتر ہے۔ مہنگی گاڑیوں، گھر ارو کمروں کی سجاوٹ اور ہال وغیرہ دیکھنے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں مگر ضروری نہیں ہیں۔ ان تمام چیزوں پر پیسہ ضائع کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ انتظامات ایسے ہونے چاہیئں کہ پر کشش تو ہوں مگر جیب پر بھاری نہ ہوں۔ سادگی کو خوبصورتی کہا جاتا ہے ، اس لیے جتنا ہو سکے سادگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ بے جا رسومات پر اخراجات کو سختی کے ساتھ ختم کیا جائے۔ شادی ایکٹ ون ڈش کی مکمل پاسداری کی جائے۔ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ رخصتی کے وقت گھر کی دیواریں بھی دعائیں دیتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر یادوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔اورجب رخصتی گھر سے ہوتی ہے تو شادی کے لمحات کے احساسات الگ ہوتے ہیں ۔اس لیےمہنگے ہالوں کے بجائے گھروں سے رخصتی کا رواج عام کیا جائے۔ شادی بیاہ کے معاملات میں اسراف کے بجائے انسانی اقدار اور مفید معاشرتی رویوں کو فروغ دیا جائے۔تاکہ بے جا رسوم کا بوجھ دلہن والوں پر پڑے اور نا دلہا والوں پر، مہمان اور میزبان دونوں ہی پرسکون رہیں۔
ان تمام باتوں پر عمل کر کے ایک پرامن اور سلیقہ شعار معاشرے کا قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے جہاں افراد ان تمام ذہنی الجھنوں اور تناو سے محفوظ رہ سکیں۔ زندگی سادگی سے بھی گزاری جاسکتی ہے، فطرت بہت سادگی پسند ہے لیکن ہم نے اپنی زندگیاں اپنے ہاتھوں مشکل بنارکھی ہیں۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہم ایک منظم معاشرے کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔
Nice one….👌bitter facts of our society.