کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں تعلیم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہر ملک کی معاشی،سیاسی،معاشرتی صورتحال صرف اور صرف تعلیم پر منحصر ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا جتنا اس ملک کا تعلیمی معیار اعلی ہوگا۔ صدیوں سے ریاستیں اپنی غرض کے بندوں کی تیاری کے لیے تعلیم کو ایک کارگر وسیلے کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہیں۔ گویا کہ تعلیم کو زمانہ قدیم سے ہی سیاسی اغراض و مقاصد اور نظام جہاں بانی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نصاب کی تبدیلی ، اہداف و مقاصد کا تعین بھی سیاست میں ہونے والے الٹ پھیر کی نزر ہوتے رہتے ہیں۔ ہر دور میں تعلیم نے ذہن سازی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور مثبت تعلیمی نظام نے ہی نسلوں کی تربیت کی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی نظام میں ایسی کیا تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے نظام تعلیم ناقص ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ پاکستان تعلیم کے شعبہ میں باقی ممالک سے بہت پیچھے نظر آتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت سازی کے بجائے سیاسی بازی گروں نے تعلیم کو اپنے مفاد کے حصول کے لیے ایک کڑی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سیاست کے عمل دخل کی وجہ سے تعلیمی نظام اور تعلیمی معیارات پر سمجھوتے کرنا عام بات ہے۔ جس کا سب سے ذیادہ نقصان نوجوان نسل کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اور ان کی صلاحیتیں اور قابلیت سیاست کے ہتھکنڈے چڑھ جاتی ہے۔
ہمارے ہاں صدیوں سے ہی انگریزوں کا قائم کردہ نظام چلا آرہا ہے جو صرف کلرک ہی پیدا کرتا ہے۔ آج بھی نصاب کے نام پر کتابیں رٹ لینا ہی تعلیم ہے۔ اساتذہ اور طالبعلم نصاب کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آج بھی 90 فیصد نمبرز لینے والے طالبعلم کو ہی ذہین اور قابل طالبعلم مانا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ طلباء نمبروں کی دوڑ میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم باقی قوموں کے برعکس سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔دنیا میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کا زور چل رہا ہے لیکن ہم آج بھی قدیم اور حستہ حال تعلیمی نظام کے بھروسے ترقی کے خواہاں ہیں۔
نظام تعلیم کا ایک اور اہم نقص طبقاتی نظام ہے جو طالبعلموں کو ان کی مالی وقعت کی بنا پر علم بیچتا ہے۔ ایک طرف کیمبرج سسٹم اور او لیول اسکولز ہیں تو دوسری طف سرکاری سکول۔ دونوں سسٹمز میں ذمین آسمان کا تضاد ہے۔سرکاری سکولوں کی حالت حستہ سے کوئی ناواقف نہیں ہے۔ امیری اور غریبی کے اسی تضاد کی وجہ سے اکثر قابل طلباء پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا واحد مقصد نوکری کا حصول ہے۔ نوکریوں کے حصول کا واحد ذریعہ تعلیم کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر ایسے معاشرے میں صرف نوکر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں کوئی اقبال نہیں بنتا ، رومی اور رازی کے پیدا ہونے کی امیدیں نہیں لگائی جاتیں۔ پھر ایسے معاشرے میں سائنسدان پیدا نہیں ہوتے صرف خادم ہی پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی بنیادی تعلیم کے حصول سے محروم ہے۔ اور تعلیم یافتہ نوجوان مال وزر کی تلاش مین بیرون ملک نکل جاتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بدولت ملک ترقی اور کامیابی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے سب سے پہلے ملکی نظام تعلیم پر توجہ دی جائے۔
یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ حکومت پاکستان تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور ملک کے بچوں میں تعلیم عام کرنے کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ ملک میں کئی ایسے اقدامت کیے گئے ہیں جن سے نظام تعلیم بہتر ہوا ہے۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ہی خیبر پختونخواہ ، پنجاب اور گلگت بلتستان کا نظام تعلیم بہتر ہوا ہے۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان میں نظام تعلیم پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ وہاں آج بھی لوگ تعلیم سے محروم ہیں۔اور وہاں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے علاقوں میں تعلیمی نظام کی بہتری کی ضرورت ہے تاکہ ہرفرد کو اسکا بنیادی حق حاصل ہوسکے۔ کیونکہ تعلیم ہر فرد کے شعور کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے تعلیم کے بغیر ترقی ممکن ہے نہ قوموں کے درمیان عزت۔ اسی لیے حکومت کو اپنی کوششیں تیز تر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم ہر گھر میں عام ہو۔
Bahut acha👌 aesa hi hai exactly.. True depiction of our education system.