ہماری دانست میں زندگی تغیرات کا وہ سمندر ہے جس میں لمحہ لمحہ بے ثباتی کا ضامن ہے ۔لیکن زندگی ہی کی طرح، زندگی کے بارے میں لوگوں کی رائے میں بھی بلا کا تغیر ہے ۔ یہ کسی کے لیے پیار کا نغمہ ہے تو کہیں موجوں کی روانی ہے۔ کسی کے لیے طوفان ہے تو کسی کے لیے گل و بلبل کی صدا۔ کسی کے لیے صبح شام کا تغیر تو کسی کے لیے اس تغیر میں پوشیدہ رنگییں مناظر۔کسی کے لیے مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں ۔اور کہیں زندگی فن ہے لمحوں کو گزارنے کا۔
مگر یہ فن ہر کسی کو نہیں آتا ۔جو فن کو پا گیا وہ امر ہو گیا ۔اور جو چوک گیا وہ رفتگاں میں گم ہو گیا۔ کبھی کبھی لگتا ہے ہم کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈور کسی اور کے پاس ہے۔وہ ہمیں انگلیوں کے اشارے پر نچاتا ہے اور ہم بے بس ناچتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کرتب میں کوئی شاد اور کوئی ناشاد مگر بے اختیار ۔ ہاں اختیار ہے تو بس رضا میں راضی رہنے کا ۔ حقیقت ہے کہ زندگی دکھوں اور سکھوں کے تضاد پر مبنی ایک امتحان ہے جس میں کبھی دامن خوشیوں سے بھر دیا جاتا ہے تو کبھی غموں کی بازگشت آنسووں سے دامن کو تر کر دیتی ہے۔ مگر یہ ہماری کم ظرفی ہے کہ جب خوشیوں کی ریل پیل ہوتی ہے تو عطا کرنیوالے سے شاد ہوتے ہوئے بھی کلمہ شکر بجا لانے سے غافل رہتے ہیں مگر جب حالات ہماری مرضی کے موافق نہیں رہتے وت رب ذولجلال سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔ وقت کی خوبصورتی ہے کہ ہمشیہ ایک سا نہیں رہتا مگر انسان اپنے رویوں میں بہت ہی جلد باز اور کم ظرف واقعہ ہوتا ہے۔ وہ جب کچھ پانا چاہتا ہے تو جستجو کرتا ہے اسکی مراد پل بھر میں پوری ہو جائے۔جتن کرتا ہے، دعائیں مانگتا ہے ، رب کو پکارتا ہے مگر چند ہی لمحوں میں مایوس ہو جاتا ہے۔آزمائش جان کر بھی ہار مان لیتا ہے۔ مگر اے کم ظرف انسان ! تمہیں کیوں لگتا ہے وہ تمہیں سنتا نہیں ۔ وہ تو قرآن کریم میں بارہا پکارتا ہے” ولاتقنطو ” یہ تکالیف ،پریشانی یہ آنسو ، یہ تڑپ تماری جو تمہیں رب سے دور کر رہی ہے ؛تمہیں خود کے قریب کرنے کی اللہ کی ترقیب بھی تو ہو سکتی ہے ۔ جو آزمائش لگ رہی ہے وہ اللہ کی خفاظت بھی تو ہو سکتی ہے ۔ جو دیر ہو رہی ہے وہ اللہ کی خیر بھی تو ہو سکتی ہے ۔تماری اللہ کو پکارتی آواز اسکی پسندیدہ بھی تو ہو سکتی ہے ۔ پھر تمارا اس پر بھروسا نہ کرنا ، مایوس ہونا، ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
مایوسی تو وہ گناہ ہے جس سے رب ذولجلال اور اسکے پیارے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بھی نفرت کی ہے۔جو تم سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے وہ تم سے غافل کیسے رہ سکتا ہے۔ اسکی آزمائش میں مایوس ہونے کے بجائے یقین اور توکل کا دامن تھامو کیونکہ یہی وہ واحد سہارا ہے جس کے ذریعے تمام مایوسیوں سے نبردآزما ہو جا سکتا ہے ۔ یقین جانئیے یقین اور توکل کا چراغ ایسا ہے جو مردہ جسم کے اندر زندگی کی روح پھونک دے۔اس کی روشنی انسان کی مددودستگیری کرتی ہے کہ وہ ایسی زندگی بسر کر سکے جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور انسان اپنی تمناؤں کو پورا اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔اور پھر جب انسان کمزور اور ناتواں پڑ جاتا ہے تو امید کی چھوٹی سی کرن ہوتی ہے جو اسکا سہارا بن جاتی ہے۔ یہی رب برتر کی مدد کا پیغام ہوتی ہے۔ تقوی والے لوگ اللہ سے لو لگا لیتے ہیں اور باقی دنیا کے دوسرے سہارے ڈھونڈتے ہیں مگر سب ایک امید پر ہی ہوتے ہیں کہ گرنے سے پہلے ان کا ہاتھ تھام لیا جائے گا۔ جب کبھی زندگی آپ کو ایسے مقام پر لا کھڑا کرے جب قدم لڑکھڑاتے محسوس ہوں تو گبھرانے اور مایوس ہونے کے بجائے اپنے رب کی رضا میں راضی رہتے ہوئے صبرواستقامت ، ہمت ارو بلند حوصلے سےزندگی کی دوڑ کو جیت جانے کا جتن کرنا چاہئے ۔بے بسی اور بے چارگی کے احساس سے رفتار سست تو پڑ سکتی ہے مگر مایوسی تو ہار کا جیتا جاگتا پیغام ہے۔بے بسی اور بے چارگی کے اسی حصار سے یقین دستگیری کے ساتھ فرار حاصل کر کے ناصرف دوڑ جیتی جا سکتی ہے بلکہ رب ذولجلال کی خوشنودی بھی اسی میں پنہاں ہے۔کیونکہ دراصل زندگی ایک آزمائش ہے جو کھرا اترا، وہ پار ہو گیا۔