صبح نو

لمحوں کی تیز رفتاری میں پل پل گھٹتی ہوئی زندگی کی کسی شام ، اڑتی ہوئی ہر سانس میں کہیں کھوتی ہوئی زندگی کے چند لمحے بچا کر پل بھر کو ٹھہر جاو ، کہیں دور پہاڑوں کی آغوش میں چھپتا ہوا سورج نجانےتم سے  کیا کہتا ہے۔کسی شام اس ڈھلتی ہوئی شام کو جی لو جو ہر روز یہی کہتی ہوئی ڈھل جاتی ہے کہ نجانے کب یونہی چلتے چلتے زندگی کی شام ہو جائے ۔۔اور ایسی شام جس کی صبح نہ ہو ۔ آخر کس جہان کو بنانے کی تمنا ہے تمہیں؟ آخر کون سی دنیا کو سجانا ہے تمہیں؟ کون سا جہان ہے جسے بنانے چل نکلے ہو کہ جینا بھول بیٹھے ہو۔ آخر کیا پانے کی چاہ ہے جو زندگی داو پر لا رکھی۔

 یوں تو غروب آفتاب کا منظر ہزاروں پیغام لیے ہر شام ایک حسین امتزاج بن کر ابھرتا ہے ۔کچھ لوگوں کے لیے تو یہ خوف اور افسردگی کی علامت بن جاتا ہے تو کسی کے لیے ڈھلتی ہوئی شام کا مطلب اختتام ہے۔ میرے خیال میں یہ کسی وقت کا نام نہیں بلکہ احساس کا نام ہے ۔ بہت گہرے احساس کا نام۔ پھر چاہے کسی کے لیے سب کچھ ختم ہونے کا احساس ہو یا زوال کا احساس ، حسین سفر کے اختتام کا احساس ہو یا کسی خوبصورت لمحے کے چھوٹ جانے کا احساس۔ تو کہیں کسی کے لیے غم و اداسی کا سایہ۔ مگر میرے دل میں شام کا مطلب اک نئی صبح کا پیغام ہے۔ شام چاہے غم کی ہو یا زوال کی ، کتنی بھی طویل ہو جائے مگر خاتمہ اسکا مقدر ہے اور اک نئی صبح اسکا سہرا۔ بجا ہے کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔ کہ اس شام کو گزر جانا ہی مقصود ہے۔ حقیقت یہی ہے صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، یونہی لمحوں میں زندگی تمام ہوتی ہے۔ میرے لیے تو شام کا ڈھلتا ہوا سورج نوید ہے اک سہانی صبح کی۔جو آج سے بھی خوبصورت ہوسکتی ہے۔۔ مگر میرا سوال یہ ہے  کہ جو ان لمحوں کو بغیر جیے گزارے چلے جاتے ہیں، وہ کیا پاتے ہیں ؟۔ جو زندگی گنوائے چلے جا رہے ہیں وہ اس کے عوض کیا حاصل کرتے ہیں  ۔

 ہاں تم سے پہلوں نے بھی کئی جانیں گنوا کر ، کئی زندگیاں بنا جئے لٹا کر اک جہاں سجایا تھا۔اک ایسا جہاں جو تضادات کی نظر ہو چکا، جہاں ہر ذی روح دوسرے کی جان کا پیاسا، جہاں انسان ہی انسان پر خدا بن بیٹھا ، جہاں شامیں ظلم کی تصویر ہیں، جہاں لاشیں گرتی ہیں اور ماوں کے جوان بیٹے کاٹے جاتے ہیں ، جہاں بہنوں کی چادروں پر بولیاں لگتی ہیں، جہاں بچوں سے باپوں کو چھین لیا جاتا ہے۔ جہاں انسانیت شرمندہ ہے ، جہاں انسانیت زخم زخم ہےاور سر بہ گریبان ہو کر چینخ رہی ہے ، دل ہمہ داغ داغ شد۔ کیا تم بھی اک ایسا جہان بنانے چل نکلے ہو؟ کیا تم بھی زندگی کی حسین شامیں بیچ کر درد بھری راتوں کو مقدر کرنے والے ہو؟ نہیں نہیں مجھے ایسا جہاں نہیں چاہیے ۔اگر یہ محنت کا ثمر ہے تو میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ اگر یہی بے حسی، بے رخی،ذہنی و جسمانی غلامی ، ہوس اور خیف ، غربت اور افلاس ہی ہمارا مقدر ٹھری ہے تو سنو اے کاتب ! میں باغی ہوں! اس دور کے رسموں رواجوں سے ، ان تختوں سے ان تاجوں سے، ان ظالم ان بدکاروں سے ، ان ظلم کے پہرے داروں سے ۔۔میں باغی ہوں!میں باغی ہوں، جو چاھو مجھ پر ظلم کرو۔

 اگر اب کے بھی چمن میں بہار آنے کی نہیں تو چمن کی ویرانی کو اپنی ہار جانو۔ کونپلیں اب بھی نہ پھوٹی تو کب پھوٹیں گی۔  مجھے تو وہ جہاں چاہئے جس کا سہانا سپنا میری آنکھوں میں جانے کب سے ہے۔ مجھے تو وہ حسین صبح کی امید ہے جس کا پیغام مجھے ہر شام کا ڈھلتا ہوا سورج دیتا ہے۔ میں اندھیروں میں ٹمٹماتی ہوئی لو کی شیدا ہوں۔ مجھے زندگی بہت پیاری ہے۔۔اس کی ہر شام انمول ہے۔ چمن میں کہیں اندھیروں، ویرانیوں کی شام آئے بھی تو میں اسے دیکھنا نہیں چاہتی۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اندھیروں کو دہرانے، انھیں یاد کرنے سے ہم جانے انجانے ان میں کمی نہیں اضافہ کرتے ہیں جو کہ سراسر حماقت ہے۔  میں اپنی شاموں کو اک ویرانی کے عوض بے مول نہیں گزرنے دوں گی۔ مجھے تو اک نیا جہان چاہیے ۔اجلا اجلا روشن روشن، تاریکیوں کا دشمن، روشنیوں کا سنگم۔ محبتوں کی فراوانی ، نفرتوں سے دوری۔ بس اپنے دل کے قفس میں قید اس طائر کو قوت پرواز دے کر تو دیکھو جو جانے کب سے ڈوبتے ہوئے سورج کے مناظر کو حسرت بھری نظروں سے تکتا ہے۔  جو آزادی کا متوالا ہے اور اخوت کا رکھوالا ہے۔ جس کی اک ہی تمنا ہے ۔۔۔ اک نئی صبح ۔

Leave a Comment