اردو ادب ، علم اوراخلاقیات کی گردان، مٹھاس اور چاشنی سے لبریز ، ادب کے قدردانوں کے لیے فن کا ابلتا ہوا چشمہ ہے۔ جس سے ہر دور فیض یاب ہوا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اردو شعر و ادب نے ادبی دنیا میں اپنی دھاک بٹھائی ہے۔ یوں تو ادب کوئی بھی ہو ، اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما مقصد قارئین کی ذہنی ترقی و نشوونما کا متقاضی ہوتا ہے۔ادب زندگی کا ترجمان، شارح اور نقاد ہونے کی حیثیت سے انھی مقاصد کا حامل ہے جو زندگی اور انسانیت کے مقاصد ہیں اور جن کی بدولت ایک بامقصد زندگی زیا پاتی ہے۔ادبی تخلیق کا مقصد اثریت کا وہ خاموش اور خفیہ کارندہ ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ بغیر بلند بانگ اعلان کے معاشرے کی روح پر اثر کرتا ہے اور قارئین کے دلوں میں سرایت کر جاتا ہے۔
ادب ماضی کی طویل مسافت میں سماجی قافلے کے قدموں کی نشاندہی کرتا ہے جس کی جھلملاہٹیں روزمرہ زندگی میں دکھائی دیتی ہیں اور معاشرے کے بطون میں کارفرما وہ نظام اخلاق و جمال ہے جس کی بدولت سماج اپنی قدری حیثیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وقت کا پہیہ جس تیزی سے گھوم رہا ہے ، ادبی اثر و رسوخ میں بھی اتنی ہی تیزی سے تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ادبی مقاصد ماضی کا حصہ اور قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں، مگر اس سہانے ماضی کا عکس دماغ سے مکمل طور پر محو نہیں ہوا۔ اس کی جڑیں تو مضبوط ہیں مگر اس کے ثمر سے فیض یاب ہونے والے لوگ ہجرت کر گئے ہیں۔ یہ قسمت کی ستم ظریفی کہیے یا پھر نسل نو کی نا اہلی ، ادب سے شناسائی میں وقت بہ وقت کمی آتی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل کی برق رفتار زندگی اور نت نئی ایجادات نے ادب کی چمک کو ماند کر دیا ہے۔ عہد حاضر کو اگر کتابوں سے عشق کی آخری صدی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ہم جس صدی میں جی رہے ہیں وہ ایسے نازک موڑ پر آ چکی ہے جہاں ادب اخلاق اور اس کے تمام تر لوازمات اور گہنے ناپیدگی کے دہانے پر ہیں۔
ایک وقت تھا جب اردو ادب بادشاہوں کے محلات سے لے کر گلی کوچوں میں بنے چبوتروں پر بیٹھے لوگوں کی گردان ہوا کرتا تھا۔ حتی کہ کوٹھے والیاں بھی شعرو شاعری اور آداب سخن کو اپنا زیور سمجھتی تھیں۔ لوگوں کو شعر و ادب سے گہرا شغف تھا لیکن وہ شغف اور شوق ہمارے آباواجداد کے ساتھ منوں مٹی تلے سماگیا۔آج نسل نو کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب ہمارا ادب صرف کاغذوں میں گونجتا ہے۔ نوجوان نسل ادب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نت نئے فسادات پھیلانے میں مشغول دکھائی دیتی ہے۔ نوجوانوں کی ذہنی پستی کا عالم یہ ہے کہ اگر مزاح نگاری سمجھنے کے لیے پطرس کا مضمون تھما دیا جائے تو نہیں پڑھتے، جس کی تھوڑی بہت سمجھ بھی آتی ہے ، لیکن اگر منٹو کاجنسیت پرمبنی کوئی افسانوی مجموعہ ہاتھ میں پکڑا دیا تو پھر سارا ادب گھول کر پی جاتے ہیں۔ اس نسل کی حالت زار پر اگرشاعر یہ کہہ دے کہ نئی نسل کے انڈے ہیں گندے ، توکوئی برا نہیں۔
عہد حاضر میں جس تناسب سے نوجوان نسل کا ادبی رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ، وہ قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔نسل نو کا ادبی لگاو کم ہونے کی اصل وجہ بدلتا ہوا طرز زندگی ، جدید ایجادات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا چلن اور جدید طرز حیات ہے جس کے اسیر ہو کر نوجوانوں نے کتابوں سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ذہنی انتشار ، جزباتیت ، سوچ و فکر اور ناوابستگی ، رشتوں سے بے پرواہی ، فن و ادب سے عاری ہونا، تن آسانی اور آسائش طلبی ، اکتاہٹ اور جلد بازی جیسی خصوصیات نوجوان نسل کا خاصا ہیں۔ برق رفتار زندگی میں من گڑھت ترقیوں کے تعاقب میں سرگرداں نوجوان دانستہ و نا دانستہ ادب سے کنارہ کش ہوتا جا رہا ہے جو کہ ادب کے لیے نقصان دہ تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ معاشرتی ساکھ کے لیے بھی مضر ہے۔ ان حالات کے پس منظر میں بازاری صارفیت ،بے روح مقصدیت ، ناقص ادبی تخلیقات جیسے عناصر کارفرما ہیں جن کا واحد مقصد دولت کا حصول ہے۔ جس کی بدولت خالص ادب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔آج ادب کے نام پر پیش کیا جانے والے لفظوں کا ڈھیر ادب کے علاوہ سب کچھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل کے اندر ادب کی کشش اور حصول علم کی تڑپ گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کی روایات اور مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے متسلسل بامقصد ادب پیش کیا جائے جس سے نوجوانوں کی حس جمالیات کو ابھارا جا سکے اور ان کے اندر اپنے اسلاف کی طرح ادبی لگاو اور گہرا شغف امڈ آئے۔
ادب کی ڈگمگاتی کشتی کو اب انھی علمبرداروں کا سہارا مقبول ہے جو آندھیوں میں چراغ جلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ نسل نو کی بقا اور منظم معاشرے کا قیام اسی صورت ممکن ہے۔ ادب کسی بھی معاشرے کا عکس ہوتا ہے ، ادیبوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی خوبصورت تصویر لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اپنی قوم و ملت کے منظم و باوقار ہونے کا ثبوت دیں۔ اسی میں مستقبل کی کامیابی مضمر ہے۔