انسان احساسات اور جذبات کا مرکب ہے ۔انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے لمحات آتے ہیں ، جب وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ میں بے معنی ہوں ،میرے پاس کوئی صلاحیت نہیں ہے ۔کئی لوگوں کو ایسے جملے بھی کہتے سنا ہے کہ "دیکھو وہ مجھ سے کتنا بہتر ہے ، وہ کتنا کامیاب ہے ،اور میں کہاں ہوں "۔ یہ مایوسی سے بھر پور سوچ گواہی دیتی ہے کہ وہ شخص احساس کمتری کا نشانہ بن چکا ہے ۔
احساس کمتری ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے، جس میں انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے کمتر ہے ۔ایک مشہور ماہر نفسیات الفرڈ ایڈلر کے نزدیک یہ احساس انسان کے اندر بچپن سے موجود ہوتا ہے ۔جو اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے ۔اور اگر یہ احساس حد سے تجاوز کر جائے توا یک بیماری کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو انسان کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے بلکہ مزید پیچھے کرتا چلا جاتا ہے۔
ایسا شخص دوسروں کے لیے تعصب اور حسد میں مبتلا رہتا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ دوسروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا البتہ وہ خود کی شخصیت بر با د کر دیتا ہے۔ شکایت کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے ۔اس شخص کے اعتماد میں کمی نظر آتی ہے ۔اس کا ا پنی ذات ،اپنی قابلیت پر سے بھروسا اٹھ جاتا ہے ۔ یہ شخص جب کسی محفل میں ہو اور اس پر تنقید کی جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے ،جو کہ ا س محفل کا حصہ ہے ،تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتا اور اسے اپنی ذات پر حاوی کر لیتا ہے ۔ یعنی وہ بات بات پر جذباتی ہو جاتا ہے ۔احساس کمتری انسان کے کردا ر اور اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے ۔چڑچڑا پن ،سخت گیری ،بے حسی ،خود غرضی ،شدت پسندی اور بد اخلاقی یہ تمام برائیاں احساس کمتری کا نتیجہ ہیں ۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ احساس شخص کو رزقِ حرام کی طرف مائل کرتا ہے ۔انسان کی آگے سے آگے بڑھنے کی جستجو اسے حرام کی طرف لے جا سکتی ہے ۔
احساس کمتری ایک زاویہ نظر ہے جو خار جی عوامل سے پیدا ہوتا ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ،جن میں بچپن کی ناخوشگواریاں ، والدین کا ناروا سلوک ،تعلیمی ناکامیاں جسمانی نقص اس نفسیاتی عارضے کا باعث بن سکتے ہیں ۔زیادہ تر احساس کمتری پیدا کرنے والے عوامل اور عناصر عموماً قریبی ہوتے ہیں ۔ فرد کے رشتہ دار ، احباب اور والدین اپنے ناامیدی اور مایوس کن رویے سے اسے کمتر محسوس کراتے ہیں ۔معاشرتی نمود و نمائش کا بڑھتا رجحان جو کہ آج کے زمانے میں سب سے بڑی وجہ ہے کہ جس کے رد عمل میں لوگوں کی احساس کمتری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ٹیکنالوجی میں بڑھو تری کے ساتھ ہی معاشرتی نمود و نمائش میں بھی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔ جہاں پہلے یہ کام دشوار تھا آج ٹیکنالوجی کے ذرائع کی معرفت سے سہل ہو گیا ہے ۔ان ذرائع میں دو بڑے ذرائع ڈرامہ یا فلم انڈسٹری اور سو شل میڈیا ہیں ۔
سب سے پہلے ڈرامہ یا فلم انڈسٹری جو آج کی ملین ڈالر انڈسٹری ہے ۔ اس نے وقت کے ساتھ بہت ترقی کی اور اپنا لوہا منوایا ہے ۔یہاں پاکستان کی غربت کا حال یہ ہے کہ کھانے کو روٹی نہیں، پہننے کو اچھے کپڑے نہیں اور عوام کے پاس صحیح تعلیم نہیں ہے۔ آدھی سے زیادہ عوام غربت کی لائن سے بھی نیچے رہ رہی ہے۔ لیکن یہاں ڈراموں اور فلموں کا جائزہ لیں تو عالی شان ملبوس کردار ، بڑے بڑے محلوں اور ہوٹلوں میں فلمیں اور ڈرامے بنا کر عوام کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کا عروج ،جہاں لوگ اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات تصویر میں قید کر کے اسے سوشل نیٹ ورک پر اپ لوڈ کرتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی ادھوری زندگی ، جس میں سے مشکل پل کی عکاسی نہیں ہوتی بلکہ سب ہشاش بشاش نظر آتا ہے ،جسے دیکھ کر دوسرے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
امید ہے کہ اب تک قا رئین بخوبی جان چکے ہوں گے کہ اس احساس کی ابتدا کہاں سے ہے اور اس کے اسباب کیا کیا ہیں ۔آئے جانتے ہیں کہ اس کے علاج کیسے ممکن ہے ۔ کیسے سیک شخص اس الجھاؤ سے نکل سکتا ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے ۔ جیسا کہ ابتدا میں ذکر آ چکا ہے کہ کوئی بھی شخص احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار عموماً اس کے قریبی ہوتے ہیں، جن سے وہ متاثر ہوتا ہے۔ تو اس لیے ہر شخص کسی نہ کسی کا نگراں ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ دوسرے کا خیال کرے ،اس کی صلاحیتوں کو پہچانے اور اس کی قدر کرے ۔ ۔ہماری اجتماعیت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کو عزت دیں ۔
جہاں تک بات ہے اس شخص کی کہ جو اس نفسیاتی عارضے کا شکار ہے ، اسے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا ۔ہر کوئی اس شخص کے رویے کہ مطابق نہیں چلے گا ،تو آسانی اسی میں ہے کہ وہ فرد اپنے رویے کی اصلاح کر لے ۔جب شخص اپنی ذات سے بے خبر ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اس پر قبضہ جما لیتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ سے باخبر رہا جائے۔ یعنی اپنی صلاحیتوں کو جا نچا جائے کہ اللہ نے اسے کس طرح کی صلاحیتیں عطا کی ہیں ۔اور اسے پہچاننے کے بعد انہیں بہتر کر نے کی کوشش کی جائے۔ پیٹر ڈیکر اپنی کتاب (managing oneself) میں لکھتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :
"بہتری کے مواقع کی تلاش میں ایسی مہارت کی کاشت میں وقت ضائع نہ کرو جہاں تمہاری صلاحیت کم ہو ۔بلکہ مستحکم رہو اور اپنی طاقت کو مضبوط کرو۔”
یعنی وہ شخص اپنی طاقت کو بہتر کرنے میں اپنا وقت صرف کرے۔
الغرض ہمیں اپنی شخصیت کو مضبوط کرنے میں اپنا وقت صرف کرنا چاہیے چہ جائکہ ہم اپنی ذ ات کا دوسروں سے مقابلہ کریں ۔ لہذا جس مقصد کے لیے رب کریم نے ہمارے اندر یہ احساس ڈالا ہے کہ ہم دوسروں سے بہتر بننے کی کوشش کریں اسی مقصد کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنائیں ۔ اور ایک اہم اصلاحی نسخہ جب جب یہ احساس گزرے کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے تو اپنے آس پاس ان لوگوں کو دیکھیں جو آپ سے کمتر ہیں اور اپنے حالات پر شکر ادا کریں ۔ اللہ کی عطا کرد ہ ہر نعمت کا جائزہ لیں اور اس کا شکر ادا کرتے رہیں ۔