ورلڈ کپ 2023 انفرادیت کا منبع ، کروڑوں دلوں کی توجہ کا مرکز، آغاز انتہائ پرجوش اور دل موہک مگر انجام دل خراش۔ تمام شائقین کرکٹ کی طرح پاکستانی عوام کے دلوں میں بھی جوش و خروش عروج پر دکھائی دیا مگرسفر اتنا کٹھن ہوا کہ منزل سے قبل ہی اختتام ہو گیا اور تمام جذبوں پر سرد اوس پڑ گئی۔ امیدوں ، مرادوں اور دعووں سے شروع ہونے والی ورلڈ کپ کی یہ مہم بجھے بجھے انداز میں جس طرح آگے بڑھی ، وہ قدرت کی مدد کے باوجود کسی مہم جو کی کیفیت کی بلکل آئینہ دار نہ تھی۔ اس مہم کے آغاز میں شاہینوں کا ٹولہ جوش اور جذبہ سے سرشار دکھائی دیا مگر جوں جوں میچز ہوتے گئے ، پاکستانی ٹیم بے بسی اور بے کسی کا نمونہ بن گئی۔ شومی قسمت کہ اس ورلڈ کپ میں نہ تو بلے بازی کام آئی اور نہ بولنگ نے سہارا دیا۔ یوں کہیے کہ ایک طرف پاکستانی بولنگ نے اس بلے باز کی بھی فارم واپس دلا دی جو کئی عرصے سے مسلسل ناکام تھا اور دوسری طرف پاکستانی بلے باز وہ بھی نہ کر پائے جو اب تک کر چکے تھے۔
کرکٹ کی دنیا کے اس سب سے بڑے معرکے ، تیرھویں ورلڈ کپ کارنگارنگ میلہ احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں سجا جہاں دس ٹیمیں جلوہ گر ہوئیں۔ اور مختلف میچوں میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئیں۔ پاکستان کے حصے میں نو میچ آئے جس میں سے صرف چار میچوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔
اس میگا ایونٹ کی چند ایسی منفرد خصوصیات تھیں جو اس سے قبل دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر اس ورلڈ کپ میں سب سے منفرد اور انوکھی بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی تاریح میں پہلی باربھارت کسی میگا ایونٹ کی مکمل میزبانی کر رہا ہےاور تمام میچز بھارت کے گراونڈز میں کھیلے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میگا ایونٹ میں کرکٹ کے کئی بڑے بڑے ستارے جگمگائے جن میں سے بعض کھلاڑیوں کا آخری ورلڈ کپ تھا۔ ان کھلاڑیوں میں بھارتی ٹیم کے کپتان روہت شرما ، انگلیڈ کے بین اسٹوکس ، آسٹریلوی کھلاڑی اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ اس منفرد اور میگا ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ، سلیکشن کمیٹی اور پی سی بی پر سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ جہاں ایک طرف شائقین میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی وہیں سابق کرکٹرز اور ماہرین کی جانب سے کڑی تنقید کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستانی ٹیم جس آوٹ کلاس فارم کے ساتھ اس ایونٹ میں شامل ہوئی تھی ، اس کا عملی کارنامہ کسی بھی میچ میں نظر نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ شاہینوں نے اس مہم میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ تو میری ناقص رائے میں، پایا تو شاید کچھ نہیں مگر صرف کھویا ہی ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل آئی سی سی رینکنگ میں سر فہرست ہونے کا تاج کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں کھو دیا جہاں سارا ہندوستان بظاہر دیوالی منا رہا تھا مگر پاکستانی ٹیم کے ذہنوں پر اداسی کے گھنے بادلوں کا اندھیرا چھایا رہا۔ پاکستانی کپتان بابر اعظم نے جہاں ورلڈ رینکنگ میں اپنی پوزیشن گنوائی تو ساتھ ہی ساتھ ٹیم کی پرفارمنس پر شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
کرکٹ شائقین کو جہاں شاہین شاہ آفریدی سے خطرناک بولنگ کی توقع تھی وہیں ان کی خراب کارکردگی نے لوگوں کے دل توڑ کر جوش و ولولہ اور آعتماد بھی گنوا دیا۔ٹیم کی مسلسل ناکامیوں نے اسے ٹاپ رینکنگ سے بھی محروم کر دیا اور ایونٹ کی ٹاپ فور پوزیشن بھی جاتی رہی۔ ٹیم کی ناقص کارکردگی پر ماہرین برس پڑے اور پی سی بی میں بھونچال آگیا۔ لیجنڈری فاسٹ بالر وسیم اکرم نے ٹیم کے فٹنس معیار پر سوال اٹھائے ہیں تو سابق کپتان و چیئرمین رمیز راجہ نے ناقص کارکردگی دیکھتے ہوئے اسے "راک باٹم” یعنی سب سے نچلی سطح پر موجود کہا ہے۔ ماہرین کے مطابق سلیکشن کے معاملات سے لے کر فٹنس کے معیار تک، ٹیم مینجمنٹ نے ہر سطح پر سمجھوتہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں اس قدر بری ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ نجی ٹی وی چینل پر رائے دیتے ہوئے وسیم اکرم کھلاڑیوں پر برس پڑے ، کہا لڑکے پروفیشنل کرکٹرز تو ہیں لیکن ان کی فٹنس اس لیول کی نہیں۔جب دودو سال فٹنس ٹیسٹ نہیں ہوں گے تو پرفارمنس ایسی ہی ہوگی۔مصباح الحق اس رائے سے اتفاق کرتے نظر آئے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ آخری بار فٹنس ٹیسٹ کب ہوا تھا لیکن ان کی فٹنس سے ایسا نہیں لگتا کہ حال میں ہوا ہوگا۔ ماہرین کی جانب سے بابر اعظم کو بطور کپتان کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ پاکستان کرکٹ میں الزام تراشی اور جوابی الزامات کا دور جاری ہے اور یہ طوفان آتے کئی دنوں تک تھمتا ہوا دکھئی نہیں دیتا۔ ورلڈکپ پاکستانی عوام اور پاکستانی ٹیم کے لیے ایک ڈراونا خواب ثابت ہوا ہے جس کے نقش مٹنے میں وقت لگے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کپتان اور سلیکشن کمیٹی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور آنے والے بڑے ایونٹس کے لیے مثبت پالیسی اختیار کریں۔