اسلامی فن تعمیر کا مجموعی جائزہ

اسلامی فن تعمیر خوبصورتی ، کمالِ فن اور ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابتدا سے لے کر عہد حاضر تک یہ فن تعمیر اپنی انفرادیت اور الگ پہچان کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ باقی تمام قوموں اور ممالک کے فن تعمیر سے کافی حد تک ممتاز اور انفرادی خصوصیات کا حام یہ فن ، مسلم ثقافتی اقدار اور روایات کا امین ہے۔ اسلام کے آغاز سے شروع ہونے والا یہ فن آج بھی نمود و نمائش کی راہوں پر سرگرداں ہے۔ حضور کی  مسجد نبوی کی تعمیر سے  لے کر دنیا کی مشہور ترین مساجد تک پھیلا ہوا یہ فن ہر آن تغیر اور ترقی کا عکاس ہے۔

اسلامی فن تعمیر کی کئی ایسی مشہور مثالیں آج بھی قائم و دائم ہیں جو دنیا بھر کے لوگوں کو اسلامی فنی تاریخ اور اقدار سے متعارف کراتی ہیں۔   محلات ، قلعوں اور مساجد اسلامی فن تعمیر کا خاصا ہیں ۔ مختلف اسلامی ادوار میں کئی عمارات ، مساجد ، محلات اور قلعے تعمیر کیے گئے جن میں ماہر معماروں کے ہنر کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔  مثلاً عہد بنو امیہ کی اہم مثالوں میں قبہ الضحراء ، جوکہ ایک گنبد ہے جسے عبدالملک نے یروشلم میں بنایا تھا ، مسجد اقصیٰ جو اسی گنبد کے قریب تعمیر کرائی گئی ہے ، جامع مسجد دمشق ، قصر امراء ، مشہور محل خلد ، مسجد قرطبہ، مسجد آسوہ، مسجد تیونس ، مسجد سوسہ ، جامع مسجد سمارا اہم ہیں ۔ اس کے علاوہ اس دور میں آزاد الدولہ مواحد نے دریائے فرات کے کنارے ایک ہسپتال تعمیر کرایا تھا جوکہ ہسپتال سے زیادہ محل معلوم ہوتا تھا۔  اس عہد کے بعد  خلیفہ متعمد نے تاج کے نام سے ایک محل بنوایا تھا جس پر چالیس لاکھ دینار لاگت آئی جو کہ اب باقی نہیں رہا۔  اسی طرح مسلم حکمرانوں نے کئی ایسی عمارات اور مساجد تعمیر کرائیں جو فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔

ابتدائی، قدیم اور شاندار اسلامی  مساجد جوکہ فن تعمیر کی بہترین عکاس ہیں ، ان میں مسجد الاحرام ، مسجد نبوی، مسجد قبا اور مسجد اقصیٰ شامل ہیں۔ جوکہ آج بھی اپنی شان و شوکت اور کمال فن تعمیر کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔  اسی طرح قیام پاکستان کے بعد بھی کئی ایسی مساجد پاک سرزمین کا حصہ بنیں جوکہ مسلمانوں کی فنی تاریخ اور تعمیری اقدار کی عکاس ہیں۔ ان مساجد میں  مسجد طوبیٰ ، بادشاہی مسجد اور فیصل مسجد زبان زدِ عام ہیں جن کا تعمیراتی حسن لوگوں کے لئے قابلِ دید ہے۔

اسلامی فن تعمیر صرف مساجد پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ اس میں قلعے اور محلات بھی قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ گنبد کی تعمیر خصوصی طور پر اسلامی طرزِ تعمیر کا حصہ ہے ۔ یہ گول ڈھانچوں کی صورت میں مکمل چھت یا چھت کے ایک حصے پر نصب ہوتے ہیں۔ جوکہ اینٹ پتھر یا پھر دھات کے بنائے جاسکتے ہیں۔  اسی طرح محراب بھی اسلامی فن  تعمیر کا جز ہے ۔ محراب عمومی طور پر مسجد یا عمارت کے داخلی راستوں کی وضاحت کے لیے بنائے جاتے تھے۔ محراب گول ، اوگی، ہارس شو، ملٹی فوائل قسم کے ہوتے ہیں۔ اسلامی فن تعمیر میں محراب کی ناگزیر مثالوں میں قرطبہ کی مسجد ، کیتھڈرل کا دوہرا محراب اور مسجد اقصیٰ کا نوکیلا محراب شامل ہیں۔ 

مساجد کے مینار بھی  خالصتاً اسلامی فن کا ہی عنصر ہے۔ یوں تو زمانہ قدیم میں یہ مینار مسجد کی طرف آنے والوں کے لیے بصری امداد کی غرض سے بنائے جاتے تھے لیکن اسکے علاوہ  اذان کے دوران مرکز کی نشاندہی بھی میناروں کے زریعہ سے ہوتی ہے۔  عمومی طور پر مساجد میں بنائے جانے والے میناروں کی تعداد ایک سے چھ تک ہوتی ہے۔  جن میں ایک مرکزی مینار اور باقی تمام چھوٹے مینار ہوتے ہیں ۔ سرپل مینار اور قطب مینار اسلامی فن تعمیر کی اہم مثالیں ہیں۔ سرپل مینار عراق میں جبکہ قطب مینار ہندوستان میں واقع ہے۔

اگر قلعوں کی بات کی جائے تو ہمیں اسلامی فنی تاریخ کی کئی مثالیں پاکستان میں ہی مل جاتی ہیں۔  کیونکہ پاکستان میں کئی ایسے قلعے موجود ہیں جو اسلامی طرز تعمیر پر بنائے گیے ہیں ۔ مثال کے طور پر شاہی قلعہ لاہور، بہاولپور کا قلعہ دراوڑ کافی اہم ہیں۔  اس کے علاوہ بلتیت فورٹ بھی اپنی مثال آپ ہے جو گلگت بلتستان میں وادی ہنزہ کے حسن کو چار چاند لگاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پشاور کا قلعہ بالاحصار بھی تعمیری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  اس کے علاوہ مشہور قلعہ روہتاس بھی اسلامی طرز تعمیر کی اہم داستان بیان کرتا ہے۔  ایسی کئی مثالیں ہمیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں اسلامی طرز تعمیر اور فنی تاریخ کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔  

لیکن ان تمام عجائبات ، تعمیری نمونوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ فن باقی تمام تہزیبوں کے تعمیری فنون سے بلکل ممتاز ہے۔ اسلامی حطاطی اور جیومیٹرک پیٹرن اسے باقی تمام فنون سے ممتاز کرتا ہے۔  اس طرز تعمیر میں اکثر روشنی استعمال کی جاتی ہے جوکہ متحرک اور بصری اثرات پیدا کرکے شیڈو ، جالی دار اسکرینوں پر مختلف حرکات و سکنات کے زریعے روشنی فلٹر کر کے پیچیدہ پیٹرن بناتے ہیں ۔ اسی طرح صحن اور باغات بھی بنائے جاتے ہیں ۔ اس تعمیر میں اکثر مقامی مواد ، اینٹوں، پتھروں اور ٹائلوں کا استعمل کیاجاتا ہے۔ ہندسی نمونے اور حطاطی کے بہترین نمونے حسن اور آراستگی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔  الغرض اسلامی فن تعمیر مسلم حکمرانوں کے تعمیری شعور اور مزہبی عبادت گاہوں کی طرف خاصی توجہ کے ضامن ہیں۔ ان فنون کو دیکھ کر ہمیں ایک طرف اسلامی فن تعمیر اور فنی تاریخ سی واقفیت حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے اجداد اپنی اقدار اور روایات میں کس قدر ضحیم اثاثہ چھوڑگئے ہیں۔ یہی تہزیب اور روایات اسلامی دنیا کی ثقافتی اور فنکارانہ صلاحیتوں کی امین ہیں۔  

Leave a Comment