اسلامی فن تعمیر ۔ ابتدائی مراحل

اسلامی طرز تعمیر اور اسلامی عمارات ہردور کے لیے توجہ کا مرکزرہی ہیں اور مختلف زمانوں اور مقامات پر فن تعمیر کے علم اور اس کی مہارت کے کئی مدارج نظر آتے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر فن تعمیر بھی تغیر پزیر رہا ہے۔ یہ فن تعمیر انہی انسانی ضروریات کے خارجی حالات سے ٹکراو کے بعد ہی وجود میں آیا ہے۔ اور جیسے جیسے یہ ضروریات ذندگی بدلتی رہیں اتنی ہی مسلسل ترمیم سے فن تعمیر غیر مختتم طور پر تغیرات اور انقلابات سے گزرتا رہا ۔

اسلامی فن تعمیر کا آغاز زبردست مذہبی اور سیاسی انقلاب کے پیش نظر ہوا جو ساتویں صدی عیسویں کے نصف اول میں پیش آیا۔ اس دوران اسلامی فوجوں نے سلطنت روم کے بہت سے علاقوں پر اپنا ہاتھ جمالیا تھا اور دولت ایران کا خاتمہ کردیا تھا۔ اسی طوفانی اور انقلابی فضا میں اسلامی فن تعمیر کا جنم ہوا ، اور ابتدا سے لے کر بعد میں آنے والی کئی صدیاں پرآشوب اور منقلب زمانے کی عکاس ٹھہریں۔اسلامی تہذیب کے آغاز میں ہی یمن میں تمدن کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں جو اب تک موجود ہیں۔ حضور کی ولادت کے سے قبل یہاں نوشت و خواند کا رواج تھا جو آپ کے آنے کے بعد معدوم ہوگیا۔اسی علاقے میں اسلام کے استقلال سے قبل کئی جزیرے ایسے تھے جنہیں تجارت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی میں مکہ کو زیارت گاہ کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اور پھر یہاں تمدن کی ایک اور صدی شروع ہوئی۔

اسلامی سنہ کی ابتدا 622 ء میں ہوئی جب حضورﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ اور یہیں سے اسلامی فن تعمیر کا آغاز ہوا جب مسجد نبوی کی تعمیر کی گئی۔ عربی میں مسجد سجدہ گاہ کو کہتے ہیں جہاں مسلمان نماز پڑھتے اور اپنے آقا کی دعوت و تبلیغ سن سکتے تھے۔ یہ جامع مسجد مربع نقشہ پر تعمیر ہوئی۔جس کا ہر ضلع  ایک سو ذرع لمبا تھا۔اور احاطہ کی دیوار زمین سے ساڑھے چار فٹ تک پتھر کی تھی۔اس سطح سے اوپر دیواریں اینٹ کی تھیں۔ حضورﷺ شمالی دیوار کے قریب قیام فرماتے تھے۔ چھت کھجور کے تنوں پر ڈالا گیا اور سہارے کے لیے اسی کے شہتیر استعمال کئے گئے۔اور ان پر کھجور کی ٹہنیاں لپیٹ دی گئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مدینہ میں تعمیر شدہ اولین مسجد کو ایک اسلامی عبادت گاہ کے حوالے سے بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے کس شاندار فن تعمیر کا مظاہرہ کیا گیا۔

بعد ازاں حضورﷺ کے جہان فانی سے رحلت فرمانے کے چند عرصہ بعد جب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور جانشینوں نے اسلام کو مستحکم کرنے کی جدوجہد شروع کی اور مختلف علاقے فتح کیے تو فن تعمیر میں بھی تغیر آیا۔ دوردراز کے ملکوں اور علاقوں میں ایسی آبادی تھی جو تعمیر کاری کا علم رکھتی تھی۔ مثلا وسی گوتھک عہد کے ماندہ علاقے اور ان میں تعمیر شدہ عمارتیں یا مسخ شدہ حصے اس بات کا اشارہ ہیں کہ یہاں تعمیرکاری اہم تھی۔ اسی طرح شمالی افریقہ ، رومی آثار کے علاوہ عیسائی کلیسوں ، گرجوں اور خانقاہوں سے معمور تھا۔ مصر میں اسکندریہ کے مقام پر بطلیموس سوتر کا تعمیر کردہ مینار عجائبات عالم میں شمار کیا جاتا ہے جسے عرب منارہ کہتے تھے ۔ یہاں تک کہ اس مقام پر سڑکیں بھی ایک نقشہ کے تحت بچھائی جاتی تھیں۔ ان کے گرد ستون دار برآمدے بنائے جاتے تھے ، سنگ مرمر کے فرش اور دیواریں بنائی جاتی تھیں۔ یہاں مخروطی مینار بھی تھے۔

 یہ تمام عجائبات مسلم حکمرانوں کے حصہ میں آئے ، ملک میں جابجا کلیسا اور گرجہ خانے بنے ہوئے تھے  جو کہ قبل اسلام شاندار  شامی فن تعمیرکا نمونہ تھے۔ اس کے علاوہ بیش بہا قیمتی اور شاندار فنون مسلم فاتحین کے حصے میں آئے۔ ان ملکوں میں بہت حد تک لوگوں کو مسلمان بنالیا گیا جن میں اکثر تعمیر کاری میں ماہر تھے۔ مفتوخہ ممالک میں ماہر معماروں کے علاوہ ہر قسم کا تعمیری مسالہ بھی مسلم حکمرانوں کے ہاتھ لگا۔ جن میں کانوں میں پڑے ایسے پتھر بھی تھے جن پر مکمل اور اکثر دیدہ زری کا کام کیا گیا تھا۔ اس طرح نہ صرف پرانی عمارتیں اسلامی تہزیب کا حصہ بنی بلکہ نئے مذہب کے لئے زندہ علم اور مہارت بھی حاصل ہوگئی۔ یہ ایک ایسا فن تعمیر پیدا کرنے والے تھے جسے کبھی سراسینی کبھی اسلامی اور کبھی مسلم یا محمدی فن تعمیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ابتدائی فتوخات کے بعد جو پہلی مسجد تعمیر کی گئی وہ کوفہ کے مقام پر سعد ابن ابی وقاص کی تعمیر کردہ تھی۔ بنیادی ضروریات سے آراستہ یہ مسجد اس خاکہ کی حامل تھی جو مسلمانوں کے نئے وسائل کو کام میں لانے کی غمازی کررہا تھا۔  مسجد نبوی سے برعکس اس مسجد کا چھت سنگ مرمر کے ستونوں پر قائم کیا گیا۔اس مسجد کی عجیب خاصیت یہ تھی کہ اس کے رقبہ کی حدبندی احاطہ کی دیوار سے کرنے کی بجائے خندق سے کی گئی۔  اور اسی رقبہ میں ایک عمارت کھڑی کی گئی۔

اسکی تعمیر کے چار سال بعد مصر میں شہر فسطاط بسایا گیا جو بعد میں قاہرہ کے لیے منتخب ہوا۔ فسطاط میں بھی ایک سیدھی سادی سی مسجد تعمیر کی گئی جو فاتح مصر عمروبن العاص نے تعمیر کرائی۔ یہ مسجد اب جامع عمرو کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کا خاکہ المقاو قیس کے بھتیجے نے بنایا تھا جوکہ عیسائی تھا۔ اس مسجد کے چھ دروازے تھے اور اسی مسجد میں اولین ممبر بھی بنوایا گیا تھا۔ اس کے بعد ممبر اسلامی فن تعمیر کا اہم حصہ بن گیا اور اسکی تعمیر کی جانب خاصی توجہ دی جانے لگی۔ کچھ عرصہ بعد اس مسجد کی تزئین و آرائش کرائی گئی تو اس کی  تعمیری خصوصیات مزید بڑھ گئیں۔

سنہ 643ء میں خلیفہ عمر نے بھی بیت المقدس میں مسجد تعمیر کرائی تھی جس کے آثار اب باقی نہیں رہے۔اس مسجد کا محل وقوع وہی رقبہ تھا جس پر آج بیت المقدس واقع ہے۔ اسی کو مسجد اقصی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سمجد قبا اور مسجد احرام اسلامی فن کی قدیم ترین شکلیں ہیں جواپنے آپ میں کمال ہیں۔  یہ تمام مساجد ابتدائی اسلامی فن تعمیر کی چند مثالیں ہیں جہاں سے یہ فن نمو پزیر ہوا۔ اور اس کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اسلامی تعمیرات میں مساجد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے مگر اسکے علاوہ محلات اور قلعوں کی تعمیر میں بھی کمال فن کی جھلک نظر آتی ہے۔

 اسلامی فن تعمیر کاایک مخصوص مزاج ہے جو کسی اور فن میں نہیں ملتا۔اسلامی فن تعمیر کی یہ مخصوص مزاجی مختلف علاقہ جات اور ممالک کے ساتھ قائم کردہ ربط کی رہین منت ہے۔اسلامی فن تعمیر کی حامل زیادہ تر مساجد اور محلات کے صحن بڑے رکھے جاتے تھے جہاں تہوار کے موقع پر اور دوران نماز لوگوں کے بڑے اجتماعات سما سکیں۔اسکے علاوہ گنبد اور محراب اسلامی تاریخ فن کا ایک اہم حصہ ہیں ۔

مجموعی طور پر اسلامی فن تعمیر ، اسلامی دنیا میں مذہب،فن اور فن تعمیر کے  درمیان گہرے روابط کا عکاس ہے ساتھ ہی ساتھ اسلامی روایات اور ثقافتی اقدار کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

Leave a Comment