علم ہر قوم کی میراث ہے جو اس قوم کی ترقی و کامیابی میں بنیادی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔علم کے حصول کا سب سے آسان راستہ تعلیمی درسگاہیں ہیں جہاں علم سکھایا جاتا ہے۔ عہد حاضر میں ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید ایجادات کی بدولت نظام تعلیم میں جدت اور بہتری آئی ہے ۔مختلف قوموں نے جدید دور کے ساتھ قدم ملانے کے لیے اپنے تعلیمی نظام کو بہت حد تک جدید ایجادات سے آراستہ کرلیا ہے۔ چند عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے سالانہ مسابقت رپورٹ جاری گئی جس میں دنیا کے بہترین تعلیمی معیارات اور پڑھے لکھے افراد کے حامل ممالک کی فہرست شائع کی گئی۔اس فہرست میں مختلف معروضی و موضوعی پیمانوں پر نظر ثانی کرنے کے بعد ایک اشاریہ ترتیب دیا گیا اور ان کی بنیاد پردس بہترین ممالک کے نام چنے گئے۔ اور یہ بات لوگوں کے سامنے واضح کی گئی کہ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو اپنے تعلیمی نظام کی وجہ سے طالبعلوں کیے پسندیدہ ہیں۔ ان ممالک میں کینیڈا، برطانیہ،آسٹریلیا،امریکا وغیرہ طلباء کی اولین ترجیح ہیں۔
2018 میں ہونے والے PISA ٹیسٹ میں تعلیمی معیار کے حوالے سے چائنا اور سنگاپور سرفہرست رہے۔اور ان ممالک نے ٹاپ رینک حاصل کیا۔ کینیڈا چھٹے نمبر پر ، فن لینڈ ساتویں نمبر پر ، یو کے دسویں نمبر پر ، آسٹریلیا 17ویں نمبر پر ، امریکہ 22ویں نمبر پر، فرانس 23ویں نمبر پر رہا۔ ان ممالک میں تعلیم اور تعلیمی معیار پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ سنگاپوراور چائنا کے طالبعلم دنیا بھر کے طلباء سے بہتر قرار پائے اور ان ممالک کے ٹاپ رینک پر آنے کی وجہ ان کا تعلیمی نظام ہی ہے۔ سنگاپور کے تعلیمی نظام کو یوں تو دنیا میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اسکی سختی اور شدت کی بدولت اسے "پریشرککر” بھی کہا جاتا ہے۔ریاضی اور سائنس کے حوالے سے عالمی تقابل میں سنگا پور کا سکول سسٹم اولین نمبر پر ہے۔
آسٹریلیا تعلیمی لخاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست ہے کیونکہ آسٹریلیا میں شرح خواندگی زیادہ ہے۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ آسٹریلیا میں 43 فیصد افراد نے سکول چھوڑنے کے بعد کسی ادارے سے تربیت حاصل کررکھی ہے جوکہ تناسب کے لخاظ سے امریکہ ، برطانیہ ، کوریا اور جاپان وغیرہ کے بعد سب سے زیادہ مانی جاتی ہے۔ البتہ امریکہ میں 43 فیصد افراد یونیورسٹی تک تعلیم یافتہ ہیں ۔اور یہ خواندگی کے لحاظ سے تقریبا پانچواں بڑا ملک ہے۔خصوصا تعلیمی معیار کےحوالے سے اگر بات کی جائے تو ہمیں علم ہوگا کہ اس فہرست میں سب سے اہم نام بیلجیم کا ہے۔یہاں تعلیم یافتہ افراد کی شرح تو زیادہ ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ باروزگار افراد کی شرح بھی باقی ممالک سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں بےروزگار افراد کی شرح صرف 3 فیصد ہے۔ اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ ملک میں تعلیم و تدریس ایک اہم شعبہ ہے۔اور اس کے معیار کی طرف خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس ملک میں اساتذہ کی اوسطا تنخواہ ماہانہ 74 ہزار ڈالرز ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تنخواہ اوسطا 52 ڈالرز تک ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ملک تعلیمی میدان میں کس حد تک اثاثے صرف کرتا ہے۔
اسکے علاوہ جنوبی کوریا میں تعلیمی معیار کافی حد تک باقی ممالک کی بہ نسبت بہتر ہوچکا ہے۔ناروے کی بات کی جائے تو یہاں ٹیکس کی شرح کافی زیادہ ہے اور ٹیکس کی ادائیگی سے حاصل ہونے والی دولت تعلیمی سرگرمیوں پر لگائی جاتی ہے۔ ناروے میں پرائمری تعلیم سے یونیورسٹی تعلیم تک فی طالب علم 14 ہزار ڈالرز سالانہ خرچ کیا جاتا ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں تیسری سب سے بڑی شرح مانی جاتی ہے۔ ڈنمارک میں بھی دولت کا سب سے بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔یہ ملکک اپنے ڈی جی پی کا7.9 فیصد تعلیمی اداروں پر خرچ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ 2018 میں ہونے والے مالی بحران کے دوران بھی اس ملک کے تعلیمی اخراجات پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا جوکہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے لیے تعلیم کتنی بڑی ترجیح ہے۔ساتھ ہی ساتھ چین جانے والے پاکستانی طلباء کی تعداد بھی اسی تناسب سے بڑھتی جارہی ہے۔
ان تمام ممالک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پاورفل ٹیوٹرنگ اور پرائیویٹ ٹیوشن کا ایک مظبوط نظام رائج ہے جوکہ سکول اور اکیڈمی کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے۔ ان ممالک کا تعلیمی نظام بہتر ہونے کے پیچھے ایک اور بنیادی عنصر تدریسی طرزورجحان ہے جوکہ اپنے آپ میں معتبر کاوش ہے۔ پرائمری سطح پر درس و تدریس کے اس معیار کی جانب اتنی زیادہ توجہ دی جاتی ہے جوکہ ہمارے ہاں آئی آئی ٹی، یا سیس ایس ایس پر بھی نہیں دی جاتی۔ ان ممالک میں درس و تدریس کا پیشہ highly paid profession مانا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اس شعبہ میں دل و جان سے جدوجہد کرتے ہیں اور اپنے طلباء کے اندر وہ تمام صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جوترقی یافتہ قوموں کا خاصا ہیں۔ اس کے برعکس وطن عزیز پاکستان میں تعلیمی نظام ابھی بھی پسمانگی اور تنزلی کا شکار ہے۔ہمارے ملک میں تعلیمی معیار کے فقدان کی بڑی وجہ ہماری کاہلی اور لاپرواہی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں تعلیم کے شعبہ میں کوئی گراں قدر تبدیلی رونما نہیں ہوسکی ، ہمارا تعلیمی نظام اب تک زبوں حالی کا شکار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں باقی قوموں سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے طبقاتی نظام اور سیاسی و معاشی بحران کی نزر ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ہماری ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے قابل نہیں ۔ اگر ہمیں باقی قوموں کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ اپنے تعلیمی اداروں کی طرف مبزول کرنا ہوگی تاکہ ہم اپنا تعلیمی معیار بہتر کرسکیں اور ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں اپنا نام درج کراسکیں۔