عہدحاضرکو ٹیکنالوجی اور سائنس کا دور جدید کہا جاتا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں گراں قدر ترقی مغرب کی مرہون منت ہے۔ مغربی سائنسدانوں کی انتھک محنت اور تجربات کی بدولت ہی انسان سائنس کی دنیا میں اس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سائنس کو ہمیشہ اسلام اور روحانیت سے بلکل متضاد قرار دیا جاتا ہے اور اسے اسلام کے زاویوں سے مخالف سمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ قطعی درست نہیں۔
حقیقت میں اسلام اور سائنس کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام کی ہی بدولت سائنس اور سائنسی ایجادات کو جلا ملی ہے۔ اسلام نے نہ صرف سانئسی تجربات کو اہمیت دی ہے بلکہ اسے انسانی بقا کا اہم پہلو بھی گردانا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغربی روایت کاروں اور قوم کے معماروں نے ہمیشہ مزہب اور سائنس کو مدمقابل کھڑا کیا۔ عیسائیت اور سائنس کے مابین لمبے عرصہ تک جنگ رہی ۔ گلیلیو پر چرچ کی طرف سے مقدمات چلائے گئے وہ بھی خالص مزہبی بنیادوں پر مبنی تھے۔ اور اسی نقطہ نظر کا پرچار مسلم قوم میں بھی کیا گیا۔ اسلام کو بھی تنگ نظر مزہب کی طرح منظر عام پر لانے کی کوشش میں اسے سائنس کے مدمقابل لانے کی جہد کی گئی مگر حقیقت اسکے بلکل برعکس تھی۔
اسلام وسعت نظر کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ جدت اور تغیر کا بھی حامی ہے۔ اسلام میں آغاز سے ہی سائنسی علم کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی ممانعت نہیں رکھی گئی۔ قرآنی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو علم ہوگا کہ اللہ نے انسان کو روز ازل سے ہی غوروفکر کی ہدایت کی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ :” یہ کتاب اللہ زبردست حکمت والے کی طرف سے نازل ہوئی ہے ۔بے شک آسمانوں اور زمین میں ایمانداروں کے لیے نشانیاں ہیں۔نیز تمارے پیدا کرنے میں اور جانوروں کے پھیلانے میں یقین والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔اور دن رات کے بدل کر آنے میں اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے نازل کیا پھر اس کے زریعے سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کیا اور ہواوں کے بدل کر لانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ "
اسی نقطہ نظر کو مزید وسعت دیتے ہوئے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ” اور روئے زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں موجود ہیں اور خود تمہاری اپنی ہستیوں میں بھی،کیا تم کونظر نہیں آتا؟”۔ اسلام کی تعلیمات کا سب سے روشن سرچشمہ قرآن ہی ہے۔ اور قرآنی تعلیمات میں واضح طور پر مکمل ضابطہ حیات بیان کردیا ہے۔انہی تعلیمات میں سائنس اور سائنسی تجربات کی بھی حمایت کی گئی ہے۔ ڈاکٹرموریس بوکایئے نے بائبل قرآن اور سائنس کے موضوع پر تصنیف لکھی جس میں انہوں نے سائنس کے حوالے سے بائبل اور قرآن کا موازنہ کیا اور اپنے نتائج کو ان الفاظ میں لکھا کہ "قرآن میں مقدس بائبل سے کہیں زیادہ سائنسی دلچسپی کے مضامین زیربحث آئے ہیں۔بائبل میں یہ بیانات محدود تعداد میں ہیں لیکن سائنس سے متباین ہیں ۔اس کے برعکس قرآن میں بکثرت مضامین سائنسی نوعیت کے ہیں۔اس لیے ان دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔موخرالزکر(قرآن) میں کوئی بیان بھی ایسا نہیں جو سائنسی نقطہ نظر سے متصادم ہوتا ہو۔یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جو ہمارے جائزہ کے بعد ابھرکر سامنے آئی۔”۔
قرآن کی ہی طرح سیرت نبویﷺمیں بھی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں حضورﷺ نے اپنی تعلیمات میں پڑھنے اور علم سیکھنے کا حکم دیا ہے۔یہاں تک کہ آپﷺ نے اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے کہ مادی دنیا کی تخلیقات کو سائنسی تجربات کی بدولت ہی سمجھا جا سکتا ہے۔اور ان تمام نشانیوں کو سمجھنے کے لیے تحقیق اور تلاش بہت ضروری ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ” ایک گھنٹہ فطرت کا مطالعہ ایک سال کی نماز سے بہتر ہے۔” اس کے علاوہ بارہا امت مسلمہ کو سائنس کے میدان میں تحقیق و تجربات کی ہدایت کی ہے۔ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے کہ دنیا خدا بزرگ و برتر کی نشانیوں سے بھری پڑی ہے ، ان کی نشاندہی کے لیے سائنس کا سہارا لینا ضروری ہے۔یا ہوں کہا جائے کہ یہ نشانیاں مادی اور عقلی تحقیقات کے زریعے ہی منظر عام پر لائی جاسکتی ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر میں دیکھا جائے توسائنس کا عمل دخل مزہبی امور میں ابتادا سے ہی رہا ہے۔ نماز کے اوقات کار کا تعین، قبلہ رخ اور قمری اسلامی کیلنڈرز وغیرہ کا تعین کرنے کے لیے سائنسی ایجادات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سائنسی تحرک کی بدولت ہی زیارتوں کی غرض سے جغرافیہ ، نقشہ سازی اور جہازرانی کے آلات وغیرہ تخلیق کیے گئے۔مسلمان سائنسدانوں نے سائنسی تجربات اور علم سیکھنے پر بھرپور توجہ دی اور فطرت کو سمجھنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی ۔الکندری ، الفارابی، ان سینا، ابن طفیل ، اور ابن رشد جیسے علماء نے اپنی تعلیمات سے لوگوں کو مستفید کیا۔ دنیا کو یہ باور کرایا کہ تجرباتی سائنس کی ابتدا مسلم تہذیب سے ہوئی ہے۔ جابر بن حیان جس نے آٹھویں صدی میں کیمسٹری کے بنیادی اصول متعین کیے اور اس کے ساتھ ساتھ ابم الہیشم جن کا نام دسویں صدی کی آپٹکس کے ساتھ منسوب ہوا۔ فلکیات سے لے کر حیوانیات غرض ہر شعبہ میں مسلم سائنسدانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے بڑی بڑی لائبریریاں قائم کیں جن کا مقصد علم کا حصول آسان تر بنانا تھا۔ قرطبہ کے حاکم دوم نے اسپین میں لائبریری قائم کی جس میں 400000 جلدیں موجود تھیں۔قاہرہ اور دمشق میں بھی ایسی کئی لائبریریاں قائم کی گئیں ۔خلیفہ المامون کی قائم کردہ لائبریری "ہاوس آف وزڈم” اس ضمن میں سب سے اہم ہے۔
اسی طرح مسلمانوں نے جراحی کے آلات بھی خود تخلیق کئے۔بہت سی مشہور لیبارٹریز بھی مسلم ماہرین کے ناموں سے منسوب ہیں۔ ان تمام مثالوں سے ایک بات تو واضح ہے کہ سائنس اسلام کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہی نمو پارہی ہے۔ سائنس کو مزہب کے خلاف پرکھ کر تنزلی میں پڑے رہنے کی بجائے ، اجتہاد کے پھاٹک دوبارہ کھولنے، منظم اور اصل سوچ کی طرف لوٹنے اور اپنی روایات کے ساتھ دوبارہ جڑنے کے لیے شعوری کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔اور یہ صرف اور صرف سائنسی ترقی میں ہی مضمر ہے۔۔مگر اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسلام مادیت اور استعمار کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگنے کو بھی پسند نہیں کرتا۔ تحقیق کی آڑ میں اخلاقیات کا استحصال کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ ہم حکمت ، طاقت اور توانائی کے حامی تو ہوسکتے ہیں مگر ہمیں انسانیت کے اصولوں سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سائنس تحقیق ، علم ، تجربہ اور مشاہدہ کا سنگم ہے لیکن اس شعبہ میں بے اعتدالی اور تجاوز کو صرف اور صرف قرآن کنٹرول کرسکتا ہے۔اور ہمیں اس حقیقت پر یقین مستحکم رکھنا ہوگا کہ سائنس قرآن کا متابع ہے۔ اور ہمیں جائز حدود میں رہتے ہوئے اس سے مستفید ہونا ہے۔