اسلام میں عورت کا مقام

مالک کائنات نے اپنی کائنات میں مردوزن کوبطور انسان برابرحیثیت اور برابر حقوق و فرائض سے نوازا۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ عورت کو معاشرے میں اپنے مقام اور اپنی حیثیت کے لیے ہمیشہ مشکلات سے گزرنا پڑا۔ اللہ نے صنف نازک کو زندگی کا لازمی جز بنا کر بھیجا اور اسے مرد کی آدھی دنیا کی حیثیت دی لیکن مردوں کے معاشرے میں عورت کو کمتر اور کمزور سمجھ کر نظرانداز کیا گیا۔ یہ معاشرے اور انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ عورت کو اپنے ہی حقوق کے لیے لڑنا پڑا اور اسے اس کے بنیادی حقوق اور اسکی حیثیت سے محروم رکھا گیا جسکی وہ روز ازل سے مستحق تھی۔

اسلام سے قبل عورت کو جینے کا حق تک حاصل نہیں تھا۔ جاہلیت کے اس دور میں معاشرے میں عورت کی حیثیت کسی شوپیس سے زیادہ نہیں تھی، اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جتنی بھی ترقی ہوئی وہ صرف اور صرف مرد کی جرات اور بہادری کا نتیجہ تھی ، اس میں صنف نازک کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جاہلیت کا یہ عالم تھا کہ جس صنف کو خوبصورتی اور احساس سے سینچا گیا اسے باغ انسانیت کا کانٹا قرار دیا گیا، جس صنف کو رحمت بنایا گیا اسے دامن تقدس کا داغ کہا گیا ، جسکے قدموں میں اللہ نے جنت رکھ دی اسے بے عزتی ، کم مائگی ور بے توقیری کی علامت کہہ کر پکارا گیا، جس کی پیدائش پر اللہ نے اپنی خوشی کی بشارت دی اس کی پیدائش پر ماتم کیا گیا۔ یہ انسان کی کم عقلی اور جہالت کی انتہا تھی۔  جاہل ذمانے نے عورت کو مرد کی ذاتی تسکین کے ذریعہ سے بڑھ کر کوئی عزت نہ دی۔ اس ذمانے میں عورت کی حالت ابتر اور ناگفتہ بہ تھی جب پیدائش کے وقت ہی اسے ذندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ اور اس انسانیت سوز رویہ کی وجہ اسکی پیدائش پر شرمساری اور بے عزتی کا احساس تھا۔ الغرض جو مغربی اور یورپی قومیں آج عورت کے حقوق کی علمبردار بن کر داد لے رہی ہیں ، دراصل عورت کی ناقدری سب سے زیادہ انہی قوموں نے کی ہے۔انہوں نے عورت کے جائز حقوق دلوانے کی بات کرنے کی بجائے اسے کمتر اور حقیر بنا دیا ، اور معاشرے میں عورت کو انتہائی پست مقام پر لاکھڑا کیا۔

ظہور اسلام کے بعد ہی حقیقت میں عورت کو اپنی اصلی پہچان ملی۔ جب نبی آخرالزماںﷺ انسانیت اور انسانی حقوق کے علمبردار بن کر معاشرے میں جلوہ گر ہوئے۔ آپﷺ نے لوگوں کو باور کرایا کہ عورت بطور انسان برابر حقوق رکھتی ہے۔ اسلام کے آتے ہی اللہ کی تعلیمات منظر عام پر آئیں  جن میں واضح طور پر بیان کردیا گیا کہ عورت کا تقدس، اسکی تکریم و توقیر اور اسکا مقام و مرتبہ کتنا اہم ہے۔ اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ عورت کے ساتھ غیرانسانی رویوں پر اللہ کی ناراضی کا سامنا بھی ہوگا ۔ جہاں ایک طرف بیٹی کی کفالت جنت کی کنجی ہے وہیں دوسری طرف اس کے ساتھ ناروا سلوک جہنم کی آگ تک بھی پہچادے گا۔

اسلام نے صحیح معنوں میں عورت کو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔اسکو تمام شرف و اعزازات اسلام کے ظہور کے بعد ہی ملے ہیں۔ ان کے نہ صرف حقوق متعین کیے گئے بلکہ ان کو مردوں کے مساوی اہمیت بھی دی گئی۔ مرد کو اگر اپنے اہل کا راعی بنایا گیا تو عورت کو بھی اپنے خاوند کے گھر کی راعیہ قرار دے دیا گیا جس کے متعلق بازپرس بھی ہوگی۔ اس کے علاوہ بطور ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی، الگ الگ حقوق و فرائض متعین کیے گئے جن کے متعلق اللہ کے ہاں مرد جوابدہ ہے۔

ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا کہ” لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔”  اسلام سے قبل عورت کے ساتھ جو برا سلوک کیا جاتا تھا ، امت مسلمہ کو اس سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی۔  اسلام سے قبل جہاں عورت کو ذندگی کا حق بھی حاصل نہیں تھا ۔وہیں اسلام نے اسے وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا۔ ذمانہ جاہلیت میں مرد کو عورت پر افضل خیال کیا جاتا تھا، ان کے خیال میں مرد تمام جنگیں لڑتا ہے اور تمام مشکل کام کرتا ہے اسلیے وہ عورت سے بہتر ہے۔ اس لیے ورثہ کا اصل مالک بھی مرد ہے مگر اسلام نے مردوزن کو مساوی حقوق دئیے۔ اسلام نے واضح کیا کہ عورت محکوم نہیں بلکہ مرد کی ماتحت ہے ۔ یعنی وہ ضروری امور میں مرد کی پابند ہے مگر غلام نہیں ہے۔ کسی بھی قسم کے غیرضروری توہین آمیز رویہ یا بیہیمانہ سلوک کا حق مرد کو نہیں دیا گیا۔ سنن ابن ماجہ سے ایک روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ

حضورﷺ نے فرمایا :” تم کو عورتوں پر بجز مخصوص حقوق کے کوئی دسترس حاصل نہیں ہے لیکن ہاں جب کوئی گناہ کریں۔”

مگر اس گناہ کی سزا جزا  کے عمل میں بھی زیادتی کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ اسلام میں عورت پر بے جا سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اسلام کا خاصہ ہے کہ اس نے عورت کے مقام و مرتبہ اور اسکی فضیلت کو بڑھا کر پیش کیا اور اسے نیکی، عبادات ، خیر اور بھلائی کے اعمال، حقوق وفرائض اور سزا جزا میں مردوں کے مساوی کردیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے کہ :” بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں  اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم تیار کر رکھا ہے۔ "

یعنی ہر عمل میں عورت و مرد کو برابر سزا و جزا دی جائے گی۔ کہیں بھی عورتوں کو مردوں سے کم نہیں کہا گیا۔ اللہ نے عورت کو ماں بنا کر اسکی خدمت پر جنت کی بشارت دی ہے۔ اسی طرح بیوی کی صورت میں عزت اور مقام ومرتبہ سے نوازا ہے۔ اور ان کو مردوں پر وہی حقوق دے دئیے ہیں جو مرد کا عورت پر ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ :” اور عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر ویسا ہی حق ہے جیسے مردوں کا عورتوں پر حق ہے۔اور مردوں کو ان پر منزلت حاصل ہے اور یہ منزلت اللہ نے مردوں کوعورتوں پر اس لیے عطا فرمائی ہے کہ وہ عورتوں کی نگرانی، نگہبانی اور ان کے نان و نفقہ کی ذمہ داری بہتر طور پر انجام دیں۔” (البقرہ)

اسی طرح حضور نے بھی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ آپ نے فرمایا:” تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ معاملات میں اچھے ہیں۔”  اسی طرح بہن اور پیٹی کو بھی اعلی مقام سے نوازا گیا۔ان کی کفالت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔

الغرض ہر روپ میں عورت کو عزت و محبت کا حقدار بنادیا گیا۔ اسلام نے ہر حوالے سے عورتوں کے ساتھ  حسن سلوک  اور پیار ومحبت کا درس دیا ہے اور اسلام ان کے ساتھ حسن معاشرت اور تحفظ کا علمبردار بھی ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جس خوش اسلوبی سے اسلام نے خواتین کے ساتھ نرمی اور ان کےحقوق کے لیے آواز بلند کی ہے ، دنیا کے کسی بھی مزہب میں نہیں کی گئی۔ اسلام ہی کی بدولت خواتین کو ان کا کھویا ہوا مقام و مرتبہ ملا اور وہ آج مردوں کے معاشرے میں عزت اور وقار کے ساتھ سر اٹھا کر جینے کے قابل ہوئی ہیں۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے وجود زن کو کائنات میں لازم و ملزم کردیا اور اسے حسن و توقیر بخش کر قابل محبت و شفقت کردیا۔ شفقت و رحمت کے اس عمل میں کوئی مذہب اسلام کی برابری کبھی کر نہیں سکتا۔

Leave a Comment