روز ازل سے ہی انسان کی سرشت میں تجسس شامل کردیا گیا ہے، جاننے کی چاہ اور بند کواڑوں سے پرے دیکھنے کی حس انسانی فطرت کا خاصا ہے ۔ اور یہی فطری خاصیت انسان کو نت نئی ایجادات اور تجربات کے لیے اکساتی ہے۔ ابتدا سے ہی انسان نے اپنی عقل اور فہم سے کام لیتے ہوئے اپنے طریق ذندگی کو سنوارنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوا ہے۔ اسی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت عہد حاضر کا جدید اور حیران کن ایجادات سے مزین دور ہے۔ موجودہ دور میں انسان نے چاند تک رسائی کو ممکن کر لیا ہے۔ دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنانے کی کامیاب جہد نے انسان کے طرز ذندگی کو بہت حد تک بدل دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی انسان کو دنیا کو مزید ترقی یافتہ بنانے کی ایک امنگ بے چین رکھتی ہے ۔
یہی انسانی تجسس اور بے چین فطرت آئے دن تہلکہ خیز ایجادات کا سبب بنتے ہیں۔ اسی کی بدولت انسان دنیا کو انگلی کے اشاروں پر چلانے کی سعی کررہا ہے۔ آج دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیارکرچکی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے محض ایک ٹچ کے فاصلے پر ہیں ۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے آنے سے ممکن ہوا ہے۔عہد حاضر میں سوشل میڈیا نے اپنے قدم مضبوطی سے جمالیے ہیں ۔ ، فیسبُک ، یوٹیوب ، واٹس ایپ ، انسٹاگرام، ٹوئٹر اور گوگل جیسی بہت سی ایپلی کیشنز کام کر رہی ہیں جنہوں نے دنیا کو گلوبل ویلج بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تمام ایپلی کیشنز دنیا کے ٹاپ ۲۰ سوشل میڈیا فورمز میں بالترتیب پہلے سات نمبروں پر ہیں۔ اس کے علاوہ چند سال قبل ٹک ٹاک اور میوزیکلی جیسی ایپس نے بھی سوشل میڈیا فورمز میں بہت کم عرصہ میں عالمی رینکنگ میں اپنی جگہ بنالی ۔
یہ تمام ایپلی کیشنز سوشل میڈیا صارفین کے لیے مختلف شعبہ ہائے ذندگی کے متعلق رائے دہی کا ایک ذریعہ ہیں اور مختلف افراد اپنی سماجی، مذہبی ، سیاسی اور معاشی صورتحال پر کھلے عام گفت و شنید کرتے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک۔ فارغ التحصیل طالب علم مارک ذکر برگ کی ایک ایجاد نے دنیا کو ایک نیا ڈھنگ دے دیا۔ اس نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر فیسبُک کی ایپلی کیشن کو جوں ہی منظر عام پر پیش کیا تو بہت کم عرصے میں ہی صارفین کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ 2004 میں تیار کی گئی اس ایپلی کیشن کو آنے والے کچھ سالوں میں مقبولیت حاصل ہونے لگی اور تقریباً پندرہ برس کے عرصہ میں فیسبُک استعمال کرنے والوں کی تعداد 2.38۔ بلین تک پہنچ گئی۔ اور مختلف شہروں میں قائم کردہ اسکے دفاتر میں مستقل ملازمین کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی۔ 2019 میں ایک رپورٹ کے مطابق فیسبُک کے فعال صارفین کی تعداد ڈیڑھ ارب سے ذائد ریکارڈ کی گئی۔ اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ ڈاؤنلوڈ کی جانے والی ایپلی کیشن بن گئی۔ گزشتہ چند سالوں میں فیسبُک کے زیر انتظام انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیرہ کے صارفین بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ اگر ان تمام ایپلی کیشنز کے صارفین کو الگ الگ شمار کیا جائے تو کل تعداد 21 ارب بنتی ہے
.
انسٹاگرام ، فیسبُک اور ٹوئٹر استعمال کرنے والے صارفین میں زیادہ تر نوجوان نسل ہے اور یہ تعداد ہر روز بڑھتی جارہی ہے۔ صارفین کی تعداد ماہانہ چھ سے آٹھ۔ فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے۔ مختلف بزنس اکاؤنٹس ، فیشن آئکونز ، مشہور برینڈز ، اور معروف شخصیات کے بارے میں تمام تر خبریں انسٹاگرام کے ذریعے ملتی ہیں۔ نوجوان اپنے پسندیدہ اداکاروں اور اپنے ہیروز کو انسٹاگرام پر فالو کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انسٹاگرام پر ریلز ، وڈیوز بنانے کا بھی ایک رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کی بدولت انسٹاگرام بھی دن بدن مقبول ہوتا جارہا ہے۔ صرف تجارتی سرگرمیوں کی مد میں انسٹاگرام سات ارب ڈالر کے محصول جمع کرتا ہے۔
یہی حال یوٹیوب اور ٹوئٹر کا ہے۔ ان ایپلی کیشنز کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ صارفین کی بہت بڑی تعداد روزانہ یوٹیوب اور ٹوئٹر باقاعدگی سے استعمال کرتی ہے۔ عام آدمی ، عام سرکاری ملازم سے لے کر اہم حکومتی عہدیداران ، کسان ، مزدور، طالب علم ، استاد ، سیاستدان نیز ہر کوئی ٹوئٹر پر آذادانہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کو چوٹ کرتے رہتے ہیں ۔ اس تعداد میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔
یوں تو یہ تمام ایپلی کیشنز بہت فائدہ مند نظر آتی ہیں اور یقیناً ان کی ایجاد ایک مفید اضافہ کی صورت میں ہی کی گئی تھی لیکن ہر مفید شے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی لے کر آتی ہے ۔ اسی طرح جہاں ایک طرف ان سوشل میڈیا سائٹس اور ایپلی کیشنز نے دنیا کے لوگوں کے درمیاں رابطہ اور رائے دہی کو انتہائی آسان بنادیا ہے وہیں ان کے بےجا اور غیرضروری استعمال کے کئی نقصانات بھی ہیں جو نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کرسکتے ہیں ۔ ایک طرف جہاں یہ ایپلی کیشنز لوگوں کے درمیان آڈیو اور وڈیو رابطوں کو ممکن بناتی ہیں ، لوگوں کو اپنے پیاروں سے دور ہوتے ہوئے بھی قرابت کا احساس پیدا کرتی ہیں وہیں دوسری طرف ان کا بے جا استعمال ایک چھت کے نیچے رہنے والوں کو بھی ایک دوسرے سے بے خبر کردیتا ہے۔
نیز سوشل میڈیا کے مثبت پہلووں کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی بہت اثر رکھتے ہیں ۔ اگر مثبت پہلووں پر نظر ڈالی جائے تو اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ سوشل میڈیا نے ذندگی بہت آسان کردی ہے۔ پیغام رسانی کے علاوہ بھی، تجارت اور معاشرت وغیرہ میں بھی سوشل میڈیا کا اہم کردار رہا ہے اور آج کے اس برق رفتار معاشرے میں سوشل میڈیا ایک بنیادی حیثیت حاصل کرچکا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا پلڑا بھی بھاری ہے۔ اور یہ کسی فتنہ سے کم نہیں معلوم ہوتا۔ سوشل میڈیا کی موجودہ شکل نے دنیا کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جس کا تصور کچھ عرصہ پہلے غیراخلاقی خیال کیا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا کی جدید ایپلی کیشن ٹک ٹاک کی مثال ہی لے لی جائے تو کوئی بھی باشعور اور مہذب انسان ترقی کا یہ راستہ نہیں قبول کرے گا بلکہ اسے معاشرتی برائیوں کا گڑھ اور نسلِ نو کی تباہی و بربادی کا سامان قرار دے گا۔
انسانی عقل وفہم ترقی کی منازل طے کرنے کے تجسس میں اس قدر محو ہے کہ اسے مثبت اثرات کے ساتھ آنے والے منفی اثرات ماند لگ رہے ہیں لیکن انسان کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے شعور کی آنکھ سے ترقی کے ان زرائع کو پرکھے اور اپنے ہاتھوں اپنے آشیانہ کو آگ لگانے کا سامان نہ کرے۔ ایجاد بذاتِ خود بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے برا یا اچھا بناتا ہے۔ جتنی جلدی نوجوان نسل سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کی طرف توجہ دے گی اتنی ہی جلدی صحیح معنوں میں ترقی کی منازل طے کر لے گی۔