دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےجو انسان اور انسانیت کے متعلق ہر طرح کی تعلیمات فراہم کرتا ہے تاکہ ایک منظم اور پرسکون ذندگی گزاری جاسکے۔ کھانے پینے سے لے کر سونے تک کے آداب ہمیں اسلام نے سکھا دیئے ہیں۔ اسلام ایسا دین ہے جو انسانی جسم اور روح کی پاکیزگی کی بات کرتا ہے اور اسکے لیے ایک مکمل ضابطہ بھی تشکیل دے دیاہے۔اسلام کے تمام اصول وضوابط انسان کی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہیں۔جن کی پاسداری کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسلام میں صحت و صفائی کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ ایک پاکیزہ روح، جسم اور دل اللہ کا پسندیدہ ہے۔ اسی لیے اسلام میں پاکیزگی اورصفائی کا درس دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں جابجا صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت عیاں نظر آتی ہے۔ صاف ستھرا جسم اور پاکیزہ دل نہ صرف ذہن کو پرسکون رکھتے ہیں بلکہ ہماری صحت کے بھی ضامن ہیں۔ یوں تو صفائی حفظان صحت کا بنیادی جز ہے لیکن اسلام میں صفائی کو نصف ایمان بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے ذہنی، جسمانی ، سماجی ، فکری غرض ہر اعتبار سے نمو ملتی ہے ۔ طبی نقطہ نظر سے بھی صفائی اور ستھرائی معاشرے میں اہم ہیں کیونکہ خوشگوار اور صحت مند معاشرہ صحت مند افراد سے مل کر ہی بنتا ہے اور صحت و تندرستی کی بقا صفائی میں ہی مضمر ہے۔ اگر غذا یا ماحول صاف نہ ہو تو معاشرہ آلودگی کا شکار ہوجائے گا اور طرح طرح کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں۔اور اسی وجہ سے کئی معتدی بیماریاں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ جس سے لوگوں کی ذندگیاں مفلوج ہوتی ہیں۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ صفائی سے مراد صرف جسمانی طہارت نہیں ہے بلکہ ہاتھ دھونے سے لے کر محلہ ، قریہ ، شہر الغرض آس پاس کے پورے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا صفائی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسکی اہمیت کو نہ تو انفرادی سطح پر فراموش کیا جا سکتا یے اور نہ اجتماعی سطح پر۔ ایک طرف جہاں صفائی ماحولیاتی ترقی کی ضامن ہے تو دوسری طرف صحت اور روحانی ترقی کا راز بھی صفائی میں پوشیدہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان فطری طور پر صفائی کو پسند کرتا یے۔
یوں تو کہنے کو ہر مذہب ہی صفائی کے نادر اصولوں کی بات کرتا ہے لیکن جب بغور مطالعہ کیا جائے تو حقیقت اس کے مکمل متضاد نظر آتی ہے۔ صرف اور صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے واقعی صفائی اور پاکیزگی کی طرف نہ صرف خاصا زور دیا بلکہ اسے ایمان کا لازمی حصہ بنا دیا۔ قرآن و حدیث میں صفائی کی اہمیت پر ڈھیروں مثالیں مل جائیں گی ۔ شرعی نقطہ نظر سے طہارت کی دو قسمیں ہیں جن میں ایک حکمی و معنوی طہارت جوکہ بذریعہ وضو اور غسل حاصل ہوتی ہے۔ دوسری حقیقیہ طہارت جوکہ ظاہری نجاست سے پاک ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔اسلام میں دونوں طہارتوں کا واضح حکم ہے۔ عام حالت میں نماز سے قبل وضو اور خاص حالت میں غسل کو بھی لازم قراردیا گیا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں حضور اکرمﷺ نے پانچ چیزوں کو انسان کی فطرت میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر چیز کا تعلق صفائی سے ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ناخن کاٹنا،مونچھیں کاٹنا، زیرناف بال صاف کرنا، ختنہ کرنا اور بغلوں سے بال نوچنا۔” اور ان پانچوں کا تعلق طہارت و صفائی سے ہے۔
صحیح مسلم میں ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺکا فرمان ہے کہ ” طہارت آدھا ایمان ہے ۔”
قرآن میں بھی ایسی نصوص بکثرت وارد ہیں جو پاکیزگی اور طہارت کو لازم قرار دیتی ہیں۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے کہ ” اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ "
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ” اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھا کریں ۔” اس سے ہمیں یقینا صفائی کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ دین اسلام میں اسکی کیا حیثیت ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ہر انسان خصوصا مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی ذات، کپڑوں ، وغیرہ کو صاف رکھے، اپنے گھر اور ماحول کو صاف رکھے،اپنے شہر اور اپنے مجموعی ماحول کو گندہ نہ کرے۔لیکن المیہ دیکھیے کہ جس مذہب نے روحانی اور جسمانی پاکیزگی اور طہارت کو لازم قرار دیا ہے ، اس کے پیروکار قرآن و حدیث کا اتباع چھوڑ کر صفائی پاکیزگی سے کتراتے ہیں ، گندگی اور نجاست کے ڈھیر محلوں اور شہروں میں جابجا نظر آتے ہیں تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس سب میں سرکاری عملوں کی نااہلی اور لاعلمی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
موجودہ صورتحال میں سماج و معاشرہ کے حساس اور ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ وہ ہمارے عقائد اور تعلیمات کی روشنی میں صفائی و پاکیزگی کی اہمیت اجاگر کریں اور مضر صحت طریق حیات کے نقصانات لوگوں کو باور کرائیں ، اس سلسلے میں تعلیمی ادارے، طبی ادارے، میڈیا اور مذہبی اداروں کو حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ لوگوں میں حفظان صحت کے متعلق شعور بیدار کیا جاسکے اور ایک صحت مند طرز ذندگی اپنایا جاسکے۔