ہم ہمیشہ سے ایک نعرہ سنتے آئے ہیں کہ عورت مظلوم ہے اور مرد ظالم۔ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں عورت مظلوم ہے؟کیا واقعی مرد ظالم ہے؟ نہیں.بلکل بھی نہیں۔بلکہ حقیقت میں تو یہ دوںوں ایک ہی سکہ کے دوپہلوہیں۔دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم قرار دیا گیا ہے۔ ذندگی کے کچھ حصوں میں اگر مرد زیادتی کرتا ہے تو بہت سے حصوں میں عورت بھی مظلوم نہیں ظالم ہے ۔ بے حد ظالم۔اگر عورت نے ایک عرصہ تک سختیاں برداشت کیں تومرد نے بھی بہت تذلیل اٹھائی ہے۔ یوں کہنا چاہئےکہ اصل مظلوم تو مرد ہے جو ایک عرصے سے عورت کے ظلم کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔میرے خیال میں مردوں کے حقوق کا بھی عالمی دن ہونا چاہئے ۔کیونکہ اس عورتوں کے معاشرے میں مرد سب سے زیادہ مظلوم ہے ۔مردوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ عورتیں تو اظہار کرکے اپنا آپ سب کے سامنے منوالیتی ہیں مگر مردوں کے پاس یہ سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔
عورت دعوی کرتی ہے کہ اس پر عرصے سے ظلم ہو رہا ہےمسائل تو عورتوں کے بہت سے ہیں سَیل لگ جائے تو شاپنگ کا مسئلہ، ساس گھر میں آجائے تو مسئلہ، خاوند موبائل کا استعمال زیادہ کرے تو مسئلہ اور اگر وہ موبائل کا ڈیٹا گھر آنے سے پہلے ڈیلیٹ کرکے موبائل سائلنٹ پہ لگا دے تو مسئلہ،آسائش زندگی کا مسلہ ، بازاروں اور شادیوں میں سج دھج کر جائیں کسی نے دیکھا تو مسلہ اور کسی نے نہیں دیکھا تو بھی مسلہ عورت محبت سے گندھی ہوئی ہے مگر صرف ان کے لئے جن سے وہ محبت کرتی ہے ،عورت عظمت کے مینار پہ جا بیٹھی ہے ان کے لئے جن کے لئے وہ قربانی دیناچاہتی ہے.
عورتیں بے چاریاں کیا کریں سب کی کْھرلی میں منہ مارنا تو ان کی عادت ہے اب کبھی ونڈا سخت ہوگیا یا چارہ مزیدار نہ لگا ہو تو شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنانا تو ہوتا ہے۔ اس لئے مرد حضرات سے خصوصی التجا ہے کہ آپ ان کا تمسخر نہ اْڑائیے گا ورنہ ایسا کاٹیں گی کہ ِچھٹی کا دودھ یاد آجائے گا اور اگر آپ اپنی ایک عورت سے بھاگ کر دوسری عورت یعنی ماں کے پاس جائیں گے تو وہاں کونسی دودھ جلیبی کھلائی جائے گی دھیان رکھیے وہاں تو کَھلا بھی پڑ سکتا ہے، میں اس سے عاری نہیں ہوں کہ عورت مزدور بھی ہے اور اسکی مزدوری کے اوقات بہت سخت ہیں۔ مگر مزدور اور مظلوم ہونے میں فرق ہے ۔میں تو یہ دلیرانہ عمل اس لئے کر رہی ہوں کہ اپنا ہی مذاق اْڑا کر خود کو ہی کھری کھری سنا رہی ہوں ۔آئیے ایک نظر اس ظلم پر ڈالتے ہیں جو مرد عورتوں پر کرتے ہیں۔سارا دن دھوپ میں خود کا بدن جلا کر گھر بیٹھی ماں بیوی اور بیٹی کو عزت کی روٹی دیتا ہے۔۔کتنا ظلم کرتا ہے۔ہر مشقت بھراکام خود کرتا ہے اور اس صنف نازک سمجھ کر ہر مشقت سے دور رکھتا ہے۔۔کتنا ظلم کرتا ہے ۔
آپ بینک جائیں ،ڈاک خانہ جائیں ،نادرا برانچ جائیں وہاں بے چارے مردگھنٹوں قطار میں کھڑے ہوں گے اور ایک عورت آ جائے تو سب سے پہلے اس کے کام کو فوقیت دی جاتی ہے۔۔وہ بھلے پورا دن کھڑے ہون خاتون منٹوں میں اپنا کام مکمل کروا کر یہ جا وہ جا۔۔ وہ عورت کو لمبی قطار میں انتظار کرنے کے لیے کھڑا نہیں کرتا۔۔بہت ظلم کرتا ہے۔ بس میں کوئی عورت آجائے اور اسکو جگہ دینے کے کھڑا ہو جاتا ہے بڑا ظلم کرتا ہے۔۔ اگر مرد جگہ نہ دے تو بے حس بد لخاظ اور بے غیرت کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔۔خاندان میں دیکھیں ساس ،بہو،نند،بیوی ،بہن کے لڑائی جھگڑوں میں سب سے زیادہ بری طرح مرد پس رہا ہوتا ہے اور ان خواتین میں کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتی۔۔سب کچھ سہہ کر اپنی ماں بہن اور بیوی کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔۔بہت ظلم کرتا ہے۔
مرد اگر عورت پر ہاتھ اٹھائے تو ظالم اور اگر عورت سے پٹ جائے تو زنخا ۔عورت کے آگے چلے تو فرعون اور پیچھے چلے تو زن مرید۔ اگر عورت کو چھوڑ دے تو سنگدل لیکن عورت اسے چھوڑ دے تو نامرد۔ عورت کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر مشتعل ہوجائے تو جیلس ۔اگر مشتعل نہ ہو تو بے غیرت۔ عورت کو کام کرنے سے روکے تو دقیانوس نہ روکے تو عورت کی کمائی کھانے والا۔ عورت پر شک کرے تو نفسیاتی مریض اور نہ کرے تو بے حس اور اگر عورت اس پر شک کرے عورت کا حق اور مرد پھر بے وفا۔ مرد گھر سے باہر رہے تو آوارہ اگر گھر میں رہے تو ناکارہ۔ بچوں کو ڈانٹے تو جابر نہ ڈانٹے تو لاپرواہ۔
عورت سے چھیڑ چھاڑ کرے تو فرسٹریٹڈ لیکن عورت کی چھیڑ چھاڑ پر برامانے تو بے وقوف۔ عورت کی تعریف کرے تو فلرٹ نہ کرے تو بدمزاج۔ بحث کرے تو بد تمیز نہ کرے تو میسنا کہلائے۔ گرل فرینڈ یا بیوی کی فرمائشیں پوری نہ کرے تو کنجوس اور اپنے لئے کچھ نہ خریدے تو زندگی سے بے زار اگر شادی کے لیے لڑکی سے نہیں پوچھا جاتا تو لڑکے سے بھی نہیں پوچھا جاتا۔ ۔ اگر بھرے بازار میں عورت کسی مرد پر الزام لگا دے تو سچ اور اگر مرد ایسا کرے تو حقوقِ نسواں کی تنظیمیں متحرک ہوجاتی ہیں۔ روزی کمانے کے لیے مرد پردیس میں خوار ہو اور عورت گھر بیٹھ کر اپنا وزن بڑھائے۔اسے باہر کی گرم ہوا بھی نہ چھو سکے۔ ہزار ہا عورت نے اپنے عورت ہونے کا فائدہ اٹھایا۔۔معزرت کے ساتھ مگر آج کی عورت اس دور کی زلیخا ہے جو اس دور کے یوسف پر کہر بن رہی ہے۔۔۔عورت اپنی عزت کا سہارا لے کر کتنے ہی بے گناہ نگل گئی مگر کسی نے اس کا گریبان نہیں پکڑا اور مظلوم ہی ٹھری۔ اور مرد ہزاروں بار بے گناہ ہو کر بھی یزید کہہ کر پکارا گیا۔
۔ ۔اس کے باوجود ہر جگہ عورتوں کی ہی بات کی جاتی ہے، جیسے مرد انسان نہ ہو مرد بے چارہ ہمیشہ سے قربانی دے رہا ہے پر افسوس عورت اس کی قدر نہیں کرتی۔
عورت نے تو چیخ چلا کر رو دھو کر عالمی یومِ خواتین منانے کا حق منوا لیا لیکن اپنی ہی مردانگی کے بھاری پتھر تلے کراہنے والے آدمی کا عالمی یوم تو دور کوئی اسکی عظمت کا نام نہیں لینا گوارہ کرتا۔ کیا مرد کی قسمت میں صرف عورت کے نام پر رسوائی ہی لکھی گئی ہے۔ یہ اس ظلم کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو عورت پر ہو رہا ہے۔۔عورت بھول بیٹھی ہے کہ مرد کی شکل میں اللہ نے کتنی خوبصورت تخلیق کی ہے۔ مرد چاہے باپ ہو ، بھائی ہو ، بیٹا ہو یا شوہر وہ اپنے گھر کے لیے اپنی بیٹی ،بہن،ماں،بیوی کے لیے ایک مضبوط سائبان کی طرح ہے ۔۔ باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لے دن رات جتا رہتا ہے۔ نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے صحت کی۔ وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں صرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں۔اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔باپ وہ ہستی ہے جو دن کو دن نہیں سمجھتا۔ راتوں کو بھی فکر معاش میں بے چین رہتاہے۔ باپ کبھی ہمیں اپنی پریشانی یا الجھن نہیں بتاتا بلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواری کا سامنا کرتا ہے.
باپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح اک چھت گھر کے مکین کو موسم کے سرد گرم ماحول سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح باپ موسم کے نارواں سلوک سے ہمیں تحفظ دیتا ہے۔ آندھی طوفان، گرج چمک اور گنگھور گھٹا سے بچا کے رکھتا ہے باپ شفقت محبت اور ایثار کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اک گھنا سایہ دار درخت جو خود تو دھوپ طوفان بارش میں کھڑا رہتا ہے پر اپنے سائے میں رہنے والوں کو تحفظ دیتا ہے۔ اس کی شاخوں پہ کتنے ہی پرندے پلتے پھولتے ہیں۔ باپ کا وجود بے پناہ عزیز اور ضروری ہوتا ہے۔ باپ جیسا کوئی نہ ہوتا ہے اور نا ہوسکتا ہے۔ مرد کا دوسرا روپ بھائی کا ہوتا ہے۔۔۔اس روپ میں مرد دنیا جہاں کی خوشیاں اپنی بہن کے قدموں میں لا رکھتا ہے۔۔بھائی باپ کی مانند بن جاتا ہے ۔۔خلوص پیار شفقت دوستی اس کی طبیعت کا خاصا ہوتا ہے وہ بہن کا ہوں خیال رکھتا ہے جس طرح ہم قیمتی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں دنیا میں ماں باپ کے بعد جو سب سے قریبی گہرا اپنائیت و خلوص سے لبریز منفرد بے مثال خونی رشتہ بھائی کا رشتہ ہی ہے۔ وہ شفقت و محبت کے حوالے سے مثل والد ہوتا ہے، جو اپنی بہنوں کو ایک والدین کی طرح بہت پیار و محبت سے پروان چڑھاتا ہے، جو ان کی نیند، ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتا ہے۔ ان کے بیمار ہونے کی صورت میں ماں کیطرح خود بھی راتوں کو جاگتا ہے۔ ان کا خیال رکھتا ہے۔ ان پر جان نچھاور کرتا ہے اور ان کے اچھے مستقبل اور اچھی زندگی کے لیے ہمہ وقت دعا گو اور کوشاں رہتا ہے۔مرد کا تیسرا روپ خاوند ہے جو اللہ نے اسکا سر پرست بنایا۔ وہ عورت کا نگراں ومحافظ ہے۔
یہ وہ واحد رشتہ ہے جس میں مخبت دیکھ کر اللہ خوش ہوتا ہےحقوق نسواں کی باجیوں کو ناگوار خاطر نہ ہو تو اتنا عرض کردوں کہ یہ مرد عورت پر حاکم ہے ۔۔اور یہ بات میں نہیں قرآن کہتا ہے۔۔ خاوند جو کہ اپنی بیوی کے سکون کو خود پر ترجیح دیتا ہے۔۔اسے عیش و عشرت کی زندگی دینے کے لیے اپنا آپ بیچتا ہے۔ وہ خود جلتا ہے مگر اپنی عورت کو محنت مشقت نہیں کرنے دیتا اور اسے اپنے گھر میں مخفوظ رکھتا ہے۔عزت پیار اور تخفظ کا پیکر ہوتا ہے۔ یہ مرد کا وہ روپ ہے کہ جس کو اللہ نے عورت کا لباس قرار دیا ، جس کو مجازی خدا کہہ کر بلایا گیا اور جس کو سجدہ کرنے کی دلیلیں دے کر اسکی عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ پھر مرد کا ایک اور روپ آتا ہے جو بیٹے کی شکل میں اللہ کی نعمت بن کر آتا ہے۔عزت احترام پیار اطاعت کی تصویر جو اپنی ماں میں جنت تلاش کرتا ہے۔یہ ماں کی بات کو حرف آخر سمجھ کر ہر غلط صحیح حکم بجا لاتا ہے۔اپنی ساری زندگی ماں کی شکل میں ایک عورت کی خدمت میں گزارتا ہے۔مرد کا کوئی بھی روپ ہو ، مگر مرد ایثار کی منہ بولتی تصویر ہے۔جو ہر دور میں عورت کے لیے کسی فرشتے سے کم نہیں رہا۔مرد کے ایک یزیدی روپ کو دیکھ کر تحریکیں متحرک ہو جاتی ہیں ۔
۔”سب مرد ایک جیسے” ، مردوں سے نجات”، آزادی کےنعرہ عام ہیں۔ خدارا۔۔ اپنے آشیانے میں اپنےہاتھوں آگ مت لگائیں۔۔ یہ حقوق نسواں کی علمبردار باجیاں عین گمراہی کا سامان کر رہی ہیں۔جسے یہ غلامی کہتی ہیں حقیقت میں وہ ہی تخفظ ہے۔ اگر عورت اپنے سائبان سے نکل کر جنگل کا رخ کرے گی تو جنگل میں انسان نہیں جنگلی جانور ہی ہوا کرتے ہیں۔پھر وہی ہوگا جس کی بنیاد عورت اپنےہاتھوں ڈال چکی ہے۔عورت کو اپنے آشیانہ کو بچانے اور اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے مرد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ مردوں کی تذلیل کرنے میں عورت کی شان بڑھتی نہیں بلکہ گھٹتی ہی ہے۔ ضروت اس بات کی ہے کہ عورت یہ تسلیم کرلے کہ کسی ایک کی وجہ سے تمام مردایک جیسے نہیں ہوجاتے۔کیونکہ اگر ایک مرد یزید تھا تو ایک مرد حسین بھی تھا۔