ہمارے دین اسلام میں اخلاقیات کو بہت زیادہ فوقیت حاصل ہے ۔ کیونکہ اسلام کی عمارت دو بنیادی ستونوں پر قائم ہے جن میں سے ایک عبادات ہے اور دوسرا اخلاقیات۔ عبادات کی کوئی لمبی چوڑی فہرست نہیں ہے اور نہ ہی امت مسلمہ کو کٹھنائیوں سے دوچار کیا گیا ہے۔ لیکن اخلاقیات کا ایک وسیع نظام ضرور تشکیل دیا گیا ہے۔ اور ان اصول و ضوابط کی پاسداری کی تلقین بھی بارہا کی گئی ہے ۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اخلاقیات کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام جہاں ہمیں علم کے حصول کا درس دیتا ہے وہیں اس کے استعمال کو ادب و اخلاق سے تشبیہ بھی دیتا ہے۔ یعنی علم کا درست استعمال کرنا ادب و اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی ادب و اخلاق ہمیں ذندگی گزارنے کا اصل ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ ایک مسلمان جب یہ ڈھنگ سیکھ جاتا ہے ، اور حسن و اخلاق کو اپنی ذندگی کا قرینہ بنا لیتا ہے تو پھر وہ بارگاہ خداوندی میں اور مخلوق خداوندی میں مقبول و معروف ہوجاتا ہے۔ اور اسی کو عظمت کا معیار بھی کہا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور حسنِ اخلاق پر دیا گیا ہے۔ اور جا بجا اخلاقِ حسنہ کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مثالوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ اگر ہم قرآن اور سنت کو مدنظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا سب سے ضروری جز حسن اخلاق ہی ہے۔ حقیقتاً اس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اور اس میں اور بہت سے اعمال بھی شامل ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً لوگوں کو معاف کردینا،بھلائی کی تلقین کرنا،نیک راہ کی دعوت دینا، برائی سے روکنا، جاہلوں سے اعراض کرنا، قطع تعلقی کو حرام کرنا اور صلہ رحمی کو عام کرنا، ظالم کو معاف کردینا، محروم کردینے والے کو بھی عطاکرنا، کسی کو دکھ نہ دینا، محبت و ایثار کا رویہ رکھنا، نرم مزاجی، بربادری، احساس اور عزت دینا، غصہ پر قابو رکھنا ، عفودرگزر سے کام لینا، مسکراہٹ اورمحبت سے پیش آنا، لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا، کسی کا دل نہ توڑنا، لوگوں میں خوشیاں بانٹنا، پیارومحبت کو عام کرنا ، الغرض ہر وہ عمل جس سے کسی دوسرے کوفائدہ پہنچے اور اسے خوشی حاصل ہو، حسن اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔
اخلاق حسنہ ہماری معاشرتی اور سماجی ذندگی کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرت کی پہلی اینٹ ہی حسن اخلاق ہے۔ اس کے بغیر نہ انسان ذندہ رہ سکتا ہے اور نہ ذندگی گزر سکتی ہے۔ بغیر حسنِ سلوک کے، انسان انسانیت کی سطح سے پست چلا جاتا ہے اور درندگی و بہیمیت پر اتر آتا ہے۔ انسانیت کا زیور ، انسانیت کا قرینہ بہترین اخلاق میں ہی مضمر ہے۔
اسلام نے تو اخلاق کو باقی تمام مذہبی امور اور عبادات کی طرح لازم جز قرار دیا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے اس کی غرض و غائیت پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآن اور اسکی تعلیمات میں جگہ جگہ حسن اخلاق کی اہمیت پر آیات ہیں۔ اور انسان کو دنیاوی،نفسانی اور ذاتی اغراض سے ماورا ہوکر دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر انسان اپنے اعمال میں ان تمام باتوں کا خیال نہ رکھے تو اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان اخلاقی امور کا کوئی اخروی فائدہ ہوگا۔
حسن اخلاق کے سلسلہ میں ہم قرآنی تعلمیات سے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان اخلاقیات اور اخلاقی امور کی کتنی فضلیت ہے ، اور اللہ کے ہاں ان کا اجر کتنا عظیم ہے۔ ارشاد ربِ باری تعالیٰ ہے کہ: ” کوئی بھلائی کا کام اگر بدنیتی ، ریا کاری اور نمائیش کے جذبے سے کیا جائے تو وہ باطل ہوگا ، اور اس میں کوئی اجر نہ ملے گا بلکہ الٹا آخرت میں وبالِ جان بن جائے گا۔“۔ یعنی کوئی بھی بھلائی کا کام دکھاوے اوراحسان کی نیت سے کرنے کی بجائے خلوص اور محبت سے کرنا سودمند ہے۔ اسی طرح سورت البقرہ میں ایک جگہ اللہ کا فرمان ہے کہ: ” مومنو! اپنے صدقات کو احسان اور ایذا دینے سے برباد نہ کرو ۔“ یعنی مومنوں کو کسی اور انسان کو تکلیف یا دکھ دینے سے باز رکھا گیا ہے۔ ان اعمال کی بدولت نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔
اپنے پیارے نبی محمد صلہ اللہ علیہ والہ وسلم کی ذندگی میں ہزاروں ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں آپ نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا اور اپنے دشمنوں کو بھی رحمت سے محروم نہ رکھا۔ آپ کی ذندگی کا ہر دن ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے دوستوں کو تو محبوب رکھا مگر دشمنوں اور ظالموں کے ساتھ بھی محبت اور احساس سے پیش آتے رہے۔ اور ہمارے لیے حسن اخلاق کا ایک عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ نے اپنی امت کو بھی اسی حسن سلوک کی تلقین کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ: ” میرے یہاں تم میں سے سب سے محبوب شخص حسن اخلاق سے متصف شخص ہے ۔“ اسی طرح حسن اخلاق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ: ” مومن کے میزان پر بروز قیامت سب سے زیادہ بھاری اور وزنی چیز اس کے حسن اخلاق ہوں گے۔“۔
ان تمام ارشادات اور تعلیمات سے یہ بات کافی حدتک واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں اخلاقیات کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ ان اخلاقی امور کو بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔ تو یہ بات ہم سب پر عیاں ہے کہ ستون کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ پاتی ۔ تو ہمیں بھی اپنے ایمان اور دین کی عمارت کو مضبوط اور منظم رکھنے کے لیے بنیادی ستونوں کو مضبوط کرنا ہوگا ، ہمیں اپنے اندر وہ تمام اخلاقی امور پیدا کرنے ہوں گے جن کا درس ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان تمام امور کا اطلاق اپنی ذاتی ذندگی پر بھی کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری دنیاوی و اخروی کامیابی اور ہماری بقا کا راز پوشیدہ ہے۔