عہد جدید اورپاکستانی تہذیب و ثقافت

کسی بھی قوم کی پہچان اس کی تہذیب و ثقافت سے ہوتی ہے ۔کیونکہ تہذیب وثقافت اس معاشرے کی رسوم و رواج اور اقدار کا مجموعہ ہوتی ہےجن کا اطلاق مشترکہ طور پر پورے معاشرے پر ہوتا ہے۔ان اقدار میں رہن سہن ، رسم و رواج، کھانےپینے کے اطوار، میل جول اور آداب سخن ، کھیل، موسمی کلچر، شادی بیاہ کی روایات حتی کہ لباس کو بھی تہذیب و ثقافت میں شمار کیا جاتا ہے۔فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ثقافت ذندگی سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ داخلی اقدار کا نام ہے اور ظاہری طور پر طریق ذندگی کا بھی۔ آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافت کسی بھی معاشرے کے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔

پاکستان چونکہ مختلف قوموں اور مختلف قبیلوں سے مل کر بنا ہے اس لیے یہاں تہذیب و ثقافت کے رنگ بھی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔یہاں کثیرمذہب، کثیر قومیں اور کثیر زبانیں عام ہیں۔ مزید یہ کہ مختلف تہذیبوں کی شمولیت سے پاکستانی ثقافت نکھر گئی۔ کہیں بلوچی، کہیں پنجابی، کہیں کشمیری، کہیں وادی مہران کا صوفیانہ رنگ ، کہیں گندھارا کی تہذیب اور کہیں پشتون کلچر کا رنگ نظر آتا ہے اور پاکستانی ثقافت کی ایک پرکشش تصویر ابھرتی ہے۔ علاقوں کی مناسبت کے ساتھ ہی مختلف زبانیں بھی بولی جاتی ہی  جو پاکستانی تہذیب کی منفرد خاصیت ہے۔

پاکستان میں سب سے منفرد ثقافت بلوچستان، پنجاب، سندھ ، پختون اور سرائیکستان کی ثقافتیں ہیں۔ سرائیکی ثقافت میں نیلا رنگ بہت ذیادہ اہمیت رکھتا ہے ، بہت سے ممالک میں بھی اس رنگ کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس خطہ کی درباری کاشی گری دیکھی جائے تو نیلا رنگ نمایاں ہے جبکہ ملتان میں بننے والے مٹی کے برتنوں پر جونقش و نگار بنائے جاتے ہیں ان برتنوں پر بھی نیلا رنگ چھایا رہتا ہے۔اس خطہ کی پہچان اجرک کا رنگ بھی نیلا اور سفید ہے۔ یہاں کے عوام اپنی ثقافت سے بہت لگاو رکھتے ہیں۔پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں تہذیب و ثقافت کے مختلف رنگ بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صوبے کے لوگوں کا لباس شلوار قمیض ہے ،اسکے ساتھ عورتیں دوپٹہ اوڑھتی ہیں اور بوڑھے دھوتی کرتا پہنتے ہیں۔   پنجابی ساگ روٹی، لسی ، مکھن ، دیسی گھی، دودھ ، باجرے کی روٹی شوق سے کھاتے ہیں۔یہاں شادی بیاہ کی رسم و رواج بھی باقی تمام صوبوں سے مختلف ہیں۔  پختون کلچر کی بات کی جائے تو وہ بھی منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ یہ لوگ لباس کے معاملے میں بھی انفرادیت رکھتے ہیں۔ مرد شلوار قمیض اور ویسکوٹ اور پگڑی پہنتے ہیں اور پشاوری چپل کو فوقیت دیتے ہیں۔ عورتیں لمبے گھیروالے فراک اور گھیر  والی شلوار اور دوپٹہ پہنتی ہیں۔ ساتھ خاص پشتون جیولری بھی پہنتی ہیں۔ یہ لوگ گوشت ذیادہ کھاتے ہیں۔  اسی طرح باقی تمام قبیلے بھی اپنے اپنے کلچر کے حساب سے لباس زیب تن کرتے ہیں اور اپنی پسند کے مطابق کھانا کھاتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کئی قدیم تہذیبوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جن میں سرفہرست چار لاکھ سال پرانی پوٹھوہار کی سواں تہذیب ہے جو راولپنڈی کے قریب سوان ندی کے کنارے قائم تھی۔ اسی طرح درہ بولان بلوچستان کی مہرگڑھ کی تہذیب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جوکہ ساڑھے چھ ہزار سال قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان میں ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی امری و نل ، کلی، رانا گندھائی، ژھوب اور کوٹ ڈی جی تہذیبیں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قدیم سندھ کی دراوڑی تہذیب بھی قابل ذکر ہے جوکہ تقریبا پانچ ہزار سال قدیم ہڑپائی تہذیب کے طور پر جانی جاتی ہے۔

 پاکستانی تہذیب متنوع ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع اور قدیم بھی ہے۔ہماری قوم جس تہذیب کو بیان کرتی ہے وہ صدیوں پرانی ہے۔اور یہ آباواجداد سے ورثہ میں ملی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسی قدیم تہذیب کے زیر اثر ذندگی گزار رہے ہیں ؟

ہمارے ہاں جب بھی تہذہب و ثقافت کہ بات چلتی ہے تو ہم ہزاروں سال پیچھے چلے جاتے ہیں اور اپنی ثقافت کو ہڑپہ اور موہنجودڑو کی تہذیب سے جوڑ خوڑ کر فخر محسوس کرتے  ہیں۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کلچر اور تہذیب ہر مقام پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۔پاکستان کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں تو برصغیر سے جڑی ہوئی ہیں۔خاص طور پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قائداعظم نے برصغیر کے اشرافیہ کے ساتھ مل کر پاکستان حاصل کیا تھا اور وہ اشرافیہ یوپی وغیرہ سے تعلق رکھتی تھی۔ تو پاکستان میں کلچر بھی وہی سے آیا ہے۔حالانکہ ان میں سے  بہت سے علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بنے۔ تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستانی ثقافت کا خمیر برصغیر سے ملتا ہے مگروقت گزرتے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت بھی بدلتی گئی اور آج تو گلوبل تہذیب کا طور چل رہا ہے۔

ہمارے عقائد بھلے باقی سب سےجدا ہیں لیکن ہمارا رہن سہن، لباس ، خوارک، رسم ورواج اور نئے نئے ٹرینڈز عالمی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ عہد حاضر میں پاکستانی قوم مغرب کی تقلید کرنے میں اس قدر مگن ہوچکی ہے کہ اپنی روایات اور ثقافت سے کب سبکدوش ہوگئی ، پتا بھی نہیں چلا۔ اب روایات و تہذیب صرف نمائش کے لیے ہی رہ گئیں ہیں۔عملی ذندگی میں ان کا اطلاق کہیں نہیں ملتا۔اب ہم عالمی سطح پر سوچتے ہیں اور عالمی طرز پر ہی جیتے ہیں۔

  اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت بہت طاقتور تھی ۔ یہاں تک کہ موہنجدوڑو اور ہڑپہ جسے ہم قدیم ترین تہذیب خیال کرتے ہیں وہ بھی بہت ترقی یافتہ تہذیب ہے اور وہ لوگ میسوپوٹیمیا تک تجارت کیا کرتے تھے۔لیکن کہنے کی بات یہ ہے کہ یہ تمام تہذیبیں اب محض  تاریخ کا حصہ ہیں اور موجودہ عہد میں گلوبلائزڈ تہذیب نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ہم آج ان تمام رواجوں اور ہتھکنڈوں کو ٹرینڈز کا نام دے کر فورا قبول کرلیتے ہیں جنہیں ماضی میں غیروں کی نقالی کہہ کر مسترد کر دیاجاتا تھا۔ ہمارے ہاں پہنے جانے والے لباس سے لے کر روزمرہ کے کھانوں تک، ہر چیز میں مغربی روایات کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی روایات اور ثقافت کو یکسر بھول چکے ہیں۔  اور کسی بھی قوم کے زوال کی یہ پہلی کڑی ہے کہ وہ اپنے اجداد اور اسلاف سے ملا ورثہ فراموش کر دے۔ گلوبلائزیشن کے اثرات قبول کرنا غلط نہیں ہے مگر اپنی روایات کو مکمل طور پر بھول جانا نقصان دہ ہے۔ یہ روایات ہمارا قومی ورثہ ہیں اور ہمارے لیے ترقی اور کامیابی کے حصول کی جدوجہد میں ایک مشعل راہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔

عہد حاضر میں قوم کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقوام عالم میں وہی غیور اور بہادر قومیں ذندہ رہتی ہیں جو اپنی پہچان، سماجی و ثقافتی اقدار اور سیاسی و معاشی دانش کو پختہ عزم سے اپناتی ہیں اور باقی دنیا کے سامنے اپنی روایات کو فخریہ انداز میں قبول کرتی ہیں۔ یہ بات قوم کی غیرت اور حمیت کی عکاس ہے۔ ضرورت اس عہد کی ہے کہ ہم اپنی قوم کے متنوع ثقافتی رنگ ہمیشہ ذندہ رکھیں گے اور آپس میں کسی قسم کی رنجشوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیں گے۔

Leave a Comment