اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس حیثیت سے انسان کو عقل و فہم کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ انسان کی یہ خوبی اسے باقی تمام مخلوق سے ممتاز کرتی ہے۔ازل سے انسان نے مجموعی طور پر گروہوں میں رہنا شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ تعداد برھتی چلی گئی۔ انسان اجتماعی ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگیا۔ اس نے اپنے ذہن اور دماغ کی طاقت کو بروئے کار لاکر اللہ کی ہی تخلیق میں قدرت کی نشانیاں تلاش کرنا شروع کیں۔ ایک جہد مسلسل کی طرح وقت کاٹا، تحقیق کی اور رفتہ رفتہ ترقی و کامیابی کی منازل طے کرتا گیا۔ اس ترقی و کامیابی کی خواہش نے انسان کی ذندگی پر کئی طرح سے اثر ڈالا۔ ایک تو اس کے طرز ذندگی میں کافی بدلاو آیا اور رہن سہن کے انداز سدھر گئے۔ انسان کی ذندگی جنگلوں سے نکل کر جدت اور نمائش سے سجے شہروں میں رقص کرنے لگی۔ جہاں ایک طرف انسان قدرت کے سربستہ رازوں کی تلاش میں سرگرداں تھا وہیں دوسری طرف وہ خود دنیا کی نمودونمائش میں کھو کر اتنا مدہوش ہوگیا کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ کب ذندگی سے اجتماعیت اور عقیدت کے رنگ غائب ہوگئے۔ انسان کی خودساختہ لامحدود بالیدگی نے اس کی اجتماعی ترقی کو بہت نقصان پہنچایا۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے سے احساس و مروت اور ہم آہنگی ختم ہوگئی۔
بلاشبہ ہمارا معاشرہ ایک متنوع معاشرے کی حیثیت سے کئی تفرقات کا حامل ہے ۔یہاں لوگ معاشی ، ثقافتی، سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی تفرقات کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور ذات پات ، رنگ نسل اور فرقوں میں منقسم ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کی مالی حیثیت بھی اسے لوگوں کی نظر میں معتبریا کمتر بنادیتی ہے۔ معاشرے میں تنوع ہونا کوئی عیب نہیں ہے۔ کیونکہ ایک معاشرہ کئی قسم کے لوگوں سے مل کر بنتا ہے جہاں لوگ مختلف مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، کوئی امیر ہوتا ہے اور کوئی غریب ، رنگ و نسل کا فرق بھی ہوتا ہے۔ عقل ودانش کا معیار بھی ایک نہیں ہے ۔درجات کی طرح دائرے بھی مختلف ہیں۔تو ایسی صورت میں اختلاف ہونا فطری بات ہے۔اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر جب یہی تنوع ، افتراقات ،مختلف رویے اور اختلافات جائز حدود سے نکل کر تنازع کی صورت اختیار کرلیتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کے لیے نفرت اور بغض جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ان تمام باتوں کا اثر انسانی روایات، انفرادی و اجتماعی رویوں ، رہن سہن اور معاشرتی عقائد پر ہوتا ہے۔
جب معاشرہ مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ جاتا ہے تو دراصل لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوتے ہیں۔ لوگوں میں صبروتحمل ، برداشت اور امن وآشتی کی چاہ معدوم ہوجاتی ہے۔ یوں معاشرتی ہم آہنگی بھی ختم ہوجاتی ہے جوکہ کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔کسی بھی قوم یا کسی بھی معاشرے کے تہذیب یافتہ اور سلیقہ شعار ہونے کے پیچھے یہی روایات اور ہم آہنگی کارفرما ہوتی ہے جن کی بدولت معاشرہ پرامن اور منظم معاشرہ بنتا ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے میں باہمی یگانگت،قرابت ، اتحادواتفاق ، یکجہتی اور انس و محبت کی آئینہ دار ہے۔ کوئی بھی ذی شعور اور باعلم انسان اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ معاشرہ جماعت اور گروہ کی صورت میں ہی قائم ہوتا ہے۔ یکتا و تنہا فرد وقت کی چکی میں پس جاتا ہے اور لمبے عرصے تک وقت کی تندوتیز آندھیوں کے سامنے نہیں ٹک سکتا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سیاسی اختلافات ،سیاسی نظریات اور مذہبی تفرقات کی وجہ سے عدم برداشت ایک ناسور کی طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔اس کے علاوہ فرقہ وارانہ تعصب بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔مذہب کی آڑ میں ائے دن لوگ ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ یہ اختلاف سراسر نفرت اور منفی رویوں میں شدت کا ذمہ دار ہے۔ ان تمام منفی رجحانات کو مذہبی ہم آہنگی اورمعاشرتی یگانگت کے رویوں سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ فی الوقت نفرت، کینہ اور بغض و عناد کے بتوں کو پاش پاش کر کے یکجہتی ، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
عہدحاضر میں معاشرے کوتنقید برائے تنقید کی بجائے ایسی روایات اور اقدامات کی ضرورت ہے جوکہ ناصرف قابل قبول ہوں بلکہ ایک طویل مدت تک معاشرتی ہم آہنگی اور یگانگت کے فروغ کا سبب بن سکیں۔ اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے اصولوں کی پاسداری ، یکجہتی اور بھائی چارہ، اتحادواتفاق وقت کی ضرورت ہے اور ہم سب کی بقا کا واحد راستہ بھی ۔ بحیثیت قوم ہماری ذمہ داری ہے ہم باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں اور آپس میں فرقہ واریت اور تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ایک خدا کی مخلوق ہیں، ہمارا رسول ایک اور قرآن ایک ہے۔ ایک امت ہونے کے ناطے ہمیں انسانی رشتوں کو سمجھنا چاہیئے۔ ہمارے پیارے نبی صلم نے بھی ہمیں اسی بات کا درس دیا ہے۔ آپ صلہ اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو ۔” یہی فرمان ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اسی میں ہماری بقا اور سلامتی ہے۔ اسی پر عمل کر کے ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔