لاہور، پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور یہ شہر برصغیر کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ لاہور کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تاریخ و ثقافت کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے ۔ لاہور شہر کو ہمیشہ سے اہم تجارتی گزرگاہ اور ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس شہر کا ماضی بڑا شاندار رہا ہے اور یہاں کی تعمیرات باقی تمام شہروں سے بہت الگ ہیں جو اس شہر کو ممتاز بناتی ہیں۔
دور حاضر میں لاہور کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ترقی اور جدید طرز تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ قیام پاکستان کے کئی سالوں بعد وجود میں آیا۔ یہ جدید لاہور بھی اپنی طرز میں منفرد ہے مگر لاہور کی خاصیت اندرون لاہور ہی ہے جسے پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کو تاریخی اہمیت اس لیے حاصل ہے کیونکہ مغلیہ دور میں دشمن کے بیرونی حملوں سے بچاؤ کے لیے فصیلیں یا دیواریں تعمیر کی گئی تھیں۔ جس میں بارہ دروازے بہت اہم ہیں۔ ان میں سے چند دراوزے تو وقت کی نظر ہوگئے اور باقی آج بھی اپنی تاریخی اہمیت کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔ ان دروازوں کے ساتھ لاہور کے بڑے بڑے مشہور بازار بھی منسلک ہیں جوکہ باہر سے آنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
لاہور کے مشہور ترین دروازوں میں سے ایک دہلی دروازہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا ، اس کے ساتھ کشمیری دروازہ بھی ملحق ہے۔ اس دروازے کا رخ دہلی کی طرف ہے۔ اسی نسبت سے اسکا نام دہلی گیٹ رکھ دیا گیا، زمانہ قدیم میں یہ لاہور کا مصروف ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس علاقہ کے بائیں طرف انتہائی خوبصورت حمام موجود ہے جو لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ اور انہیں مسحور کردیتا ہے۔ یہاں پرانے بازار موجود ہیں۔ پرانی گلیاں اس علاقہ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں ۔ تاریخی مسجد وزیر خان بھی اسی جگہ واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت بڑا لنڈہ بازار بھی موجود ہے جہاں لوگوں کی بھیڑ جمی رہتی ہے۔ اکبر بادشاہ نے ٹاؤن کے قریب ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی تھی جس کو اکبری مارکیٹ کا نام دیا گیا ۔ یہ مارکیٹ آج بھی اتنی ہی مقبول و معروف ہے۔ لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ رنگ برنگ کھانوں کے لیے بھی یہ ایک مشہور مقام ہے۔
اسی طرح ایک اور مشہور گیٹ شاہ عالم گیٹ تھا جسے عام طور پر شاہ عالمی کہا جاتا ہے۔ اس کا نام شہنشاہ بہادر شاہ عالم کے نام پر رکھا گیا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران اس گیٹ کو جلادیا گیا لیکن اس کے ساتھ موجود بہت بڑا بازار ابھی بھی لوگوں کے ہجوم سے بھرا رہتا ہے۔ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے کافی اہم ہے ۔ یہاں کئی مشہور حویلیاں اور گلیاں موجود ہیں۔ رنگ محل ، سوہا بازاراور کناری بازار نہایت اہم ہیں ، ساتھ ہی ساتھ کپڑوں کی سب سے بڑی مارکیٹ اعظم مارکیٹ بھی اسی علاقہ میں واقع ہے۔ اسی طرح سنہری مسجد اور اونچی مسجد جیسی تاریخی مساجد بھی اسی جگہ واقع ہیں۔
اسی طرح ٹکسالی گیٹ بھی مشہور و معروف دروازوں کی فہرست میں اہم ہے ۔ یہ نام سکے ڈھالنے کے لیے موجود ٹکسال کی وجہ سے پڑا ، تاہم آج منہدم ہوچکا ہے۔ مگر یہ مقام اب کھانے پینے کی جگہوں کی وجہ سے مشہور ہوچکا ہے۔ یہ لاہوریوں کا پسندیدہ فوڈ پوائنٹ ہے جہاں پھجے کے پائے اور حلوہ پوری کی مشہور دکانیں واقع ہیں۔ اسی جگہ شیخوپڑیاں بازار بھی واقع ہے جو کھسہ اور پشاوری چپلوں کا بڑا بازار ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد یہاں خریداری کے لیے آتی ہے۔
لاہور کا ایک اور اہم دروازہ لاہوری گیٹ کہلاتا ہے جوکہ لاہور کا سب سے پرانا گیٹ ہے۔ اس کا نام لوہاری گیٹ رکھا گیا تھا کیونکہ اس کے اردگرد تمام دکانیں لوہاروں نے بنا رکھی تھیں۔ عہدحاضر میں اس کا کلچرصرف کھانا ہی کھانا ہے۔ اسی گیٹ کے سامنے لاہور کا سب سے بڑا بازار انارکلی بازار واقع ہے جسے پاکستان کا سب سے بڑا بازار مانا جاتا ہے۔ اس بازار میں ضروریات ذندگی کی ہر شے دستیاب ہے۔ انارکلی بازار اپنی انفرادیت میں بہت مقبول ہے اور پورے پاکستان کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔اسی بازار کے ساتھ لاہور کی مشہور ترین فوڈ اسٹریٹ واقع ہے جوکہ رنگ رنگ کے کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں ہر وقت لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔
اسی طرح موچی گیٹ بھی کافی اہمیت سمیٹے ہوئے ہے۔ موچی گیٹ کو لاہور کا دل کہا جاتا ہے۔ اور یہ مغلیہ فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں جوتوں کی مرمت اور مینوفیکچرنگ کے بہت سے کارخانے موجود ہیں۔ اس کے اندر بھی کئی حویلیاں موجود ہیں مثلاً مبارک حویلی ، نثار حویلی اور لال حویلی وغیرہ ، جن کو دیکھ کر مغلیہ فن تعمیر کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ چند مشہور و مقبول گیٹ لاہور کی پرانی تاریخ اور ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ واقع بازار اور مارکیٹیں پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے پرکشش ہیں ۔ لوگ دور دور سے یہاں خریداری کے لیے آتے ہیں۔ ان بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ کبھی کم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور شہر کا پاکستان کا پرجوش اور پرشور شہر مانا جاتا ہے۔