پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کے پچھلے کئی سالوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ٹیم نے کرکٹ کی دنیا کے تمام بڑے ایونٹس جیتنے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ پچھلے 75 سال سے پاکستانی ٹیم اپنی کارکردگی کی بدولت دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس ٹیم میں کئی بڑے بڑے اور لیجنڈ کھلاڑیوں کے نام شامل ہیں جہیں کرکٹ کی دنیا کا سورما مانا جاتا ہے۔ عہد حاضر میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا شمار صف اول کی ٹیموں میں ہوتا ہے۔ عبدالحفیظ کاردار سے لے کر بابر اعظم تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتانوں نے بہت سی کامیابیاں سمیٹی۔ ٹیسٹ کرکٹ، ٹی ٹوینٹی اور ون ڈے ، تقریبا تمام فارمیٹس میں ٹیم نے اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کو عالمی ٹیسٹ کرکٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
پاکستانی ٹیم کی ایک خاصیت ہے کہ یہ جتنی جلدی اپنے مداحوں کو مایوس کردیتی ہے ، اتنی ہی تیزی سے مداحوں کے دلوں میں گھر بھی کرلیتی ہے۔ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں کئی ایسے یادگار لمحے ہیں جنہیں مداح آج بھی نہیں بھولے۔ اور جن کے ساتھ آج بھی لوگوں کے جذبات اتنی ہی شدت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
1952ء میں پاکستان کی ٹیم نے نئی دہلی میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا اور بھارت کے مقابلے میں شکست کا سامنا کیا۔ اس وقت عبدالحفیظ کاردار کپتان تھے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھارت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ٹیم نے فتح سمیٹ کرعالمی کرکٹ کے دروازے پر دستک دی۔اور دنیا کو خبردار کیا کہ یہ ٹیم مستقبل میں باقی سب کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ فضل محمود اس میچ کے ہیرو تھے جنہوں نے بارہ وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے بعد انگلینڈ کے خلاف بھی فضل محمود نے کئی میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ پاکستان ٹیم کے لیے اور مداحوں کے لیے ایک بڑا یادگار لمحہ ہے۔
1992 کا ورلڈکپ کوئی نہیں بھول سکتا۔ یہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور یادگار لمحہ ہے۔ اور اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے دل میں میچ کا پل پل تروتازہ ہے۔ شائقین کرکٹ اس ورلڈکپ کو کبھی فراموش نہیں کر پائے۔ اس سے پچھلے تین ورلڈ کپ مقابلوں میں سیمی فائنل سے آگے نہ بڑھنے والی ٹیم نہ صرف پہلی بار فائنل میں پہنچی بلکہ اس ٹیم نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے ورلڈ کپ اپنے نام بھی کرلیا۔ اس ورلڈ کپ کا احوال خواب جیسا ہے۔ ان تیس سالوں میں شاید ہی کوئی ایسا موقع ہوگا جب اس جیت کو یاد نہ کیا گیا ہو۔ اس ورلڈ کپ کی شروعات میں تو ٹیم کو قدم جمانے میں کافی دقت کا سامنا ہوا۔ ابتدائی میچوں میں ٹیم کے قدم ڈگمگاتے رہے اور تین میچوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ یہ کافی مایوس کن اوپننگ تھی لیکن اس کے بعد ٹیم نے آسٹریلیا،سری لنکا اور نیوزی لینڈ کو شکست دی تاہم انگلینڈ کے خلاف بارش کی وجہ سے میچ رک گیا اور اس طرح پاکستانی ٹیم کو ایک پوائنٹ مل گیا۔۔یہی ایک پوائنٹ پاکستانی ٹیم کوسیمی فائنل تک لے گیا۔ یہ ورلڈکپ عمران خان کی قیادت میں کھیلا گیا۔ سیمی فائنل میں پاکستانی ٹیم نے نیوزی لینڈ کو شکست دی اور پھر فائنل تک رسائی ممکن کرلی ۔ میلبرن میں فائنل میچ انگلینڈ کے خلاف کھیلا گیا جس میں پاکستان 22 رنز سے فاتح قرار پایا۔ اس میچ میں وسیم اکرم اور انضمام الحق نے بہترین کارکردگی دکھائی۔ کپتان عمران خان کا سرکالن کاوڈر کے ہاتھ سے کرسٹل ٹرافی لینا پاکستانی کرکٹ کی تافیخ کا سب سے یادگار لمحہ سمجھا جاتا ہے۔ جو شائقین کرکٹ کے دلوں میں ہمیشہ امر رہے گا۔
اس کے علاوہ پاکستان ٹیم کے لیے ایک اور بڑا موقع ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ تھا جو 2009 میں ہوا۔ اس سے قبل 2007 میں پاکستانی ٹیم بھارت سے ورلڈ کپ فائنک میں شکست کھا چکی تھی۔ لیکن 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو سات رنز سے ہرایا ، جس میں شاہد آفریدی کی نصف سینچری اور دو وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کا عمل دخل نمایاں تھا۔ پاکستان نے فائنل سری لنکا کے خلاف کھیلا اور اسے آٹھ وکٹوں سے شکست دی۔ فائنل میں بھی شاہد آفریدی مین آف دی میچ رہے۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کے بولرز چھائے رہے۔عمر گل نے تیرہ وکٹیں لیں جبکہ سعید اجمل نے بارہ اور آفریدی نے گیارہ وکٹوں کے ساتھ شاندار پرفارمنس دکھائی۔ یہ بھی کرکٹ کی تاریخ کا ایک اہم یادگار حصہ ہے۔
اسی طرح 2017 میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کرکٹ کی تاریخ میں اہم ہے جسے پاکستانی ٹیم نے سترہ سال کی مسلسل محنت اور کوشش سے جیت لیا۔ سرفراز احمد کی قیادت میں یہ کامیابی بہت سے اتارچڑھاو کے بعد ممکن ہوئی مگر شائقین کے لیے یہ ایک اہم اور یادگار لمحہ ہے۔ اس جیت میں فخرزمان کی سنچری اور محمد عامر کی تین وکٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اس کے علاوہ پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے ایک خوشگوار اور اہم موقع تھا جب جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلی بار ٹیسٹ میچ مقابلوں کے لیے پاکستان آنے کے لیے تیار ہوگئی۔ اس موقع کو پاکستان میں کرکٹ کے احیا کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل 2009 میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگردحملے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے تعطل کا سلسلہ کافی لمبا رہا۔ اور کوئی بھی ٹیم پاکستان آکر میچ کھیلنے پر رضامند نہیں ہوتی تھی۔ اس صورتحال میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کا پاکستان آنے کے لیے رضامند ہوجانا اور پاکستان آکر میچ کھیلنا کرکٹ شائقین کے لیے خافی خوش آئند بات تھی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم اور شائقین کے لیے یہ تمام لمحات بہت اہم ہیں۔ ان لمحات کے ساتھ جذبات اور محنت کا سنگم منسلک ہے جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ تمام مداحوں کے دل میں یہ لمحے تاعمر قید رہیں گے۔