موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی طرز ذندگی میں تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یوں تو یہ تبدیلی کافی خوشگوار ہوتی ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے موسم سرما کی آمد کے ساتھ فضائی آلودگی کی ایک صورت بھی رونما ہو جاتی ہے، جس سے لوگ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اسموگ ماحولیاتی آلودگی کی وہ قسم ہے جس نے پاکستان کے کئی شہروں خصوصا لاہور کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یوں تو تمام شہروں میں ہی موسم سرما میں دھند ہوتی ہے مگر گزرتے سالوں میں یہ مسلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے اور اب اس دھوئیں اور دھند کے امتزاج نے اسموگ کو جنم دیا ہے جس نے شہریوں کی ذندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ مسلہ کئی سالوں سے یوں ہی بڑھتا جا رہا ہے اور لاہور سمیت پنجاب کے کئی حصے اسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔
اسموگ بنیادی طور پر دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموما ذیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے۔لفظ اسموگ انگریزی الفاظ اسموک اور فوگ سے مل کر بنا ہے۔ 1900ء میں پہلئ بار یہ لفظ استعمال کیا گیا تھا۔اسموگ کو زمینی اوزون کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک وزنی پیلی سرمئی دھند کی چادر ہے جو ہوا میں جم جاتی ہے۔اسموگ وسعت نگاہ کو بھی محدود کر دیتی ہے۔ اس فضائی آلودگی میں نائٹروجن آکسائڈ ، سلفرآکسائیڈ ، اوزون ، دھواں یا کم دکھائی دینے والے اجزا مثلا کاربن مونو آکسائڈ اور کلوروفلورو کاربن وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام اجزا پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کی صورت میں خارج ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ صنعتی پلانٹس اور ان میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں ، فصلوں کو جلانے اور فاضل مادوں کے اخراج سے پیدا ہونے ہونے والی حرارت سے بھی ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی فصلیں اگانے کے لیے قدیم طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ جنگلات کا کٹاو شدت سے بڑھتا جا رہا ہے۔درختوں کی کمی کی وجہ سے بارشیں کم ہوتی ہیں اور گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے اسموگ مزید بڑھ جاتی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں میں اسموگ میں شدت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش کا نظام شدید متاثر ہوا ہے اور بارشوں کے دورانیے میں شدید کمی واقع ہوئی ہے، جس سے سموگ کا مسلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ اسموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر ملک اقدامات اٹھا رہا ہے۔اس سلسلے میں بین الاقوامی ادارہ صحت بھی کوشاں ہے۔حال ہی میں پاکستان میں اسموگ کے فوری کنٹرول کے لیے مصنوعی بارش کرانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے اور اس سلسلے میں چائنہ سے مدد کی درخواست کی گئ ہے۔ حکومت پنجاب نےلوگوں کو اسموگ کے سنگین اثرات سے بچاو کے لیےہفتہ اور اتوار کو سرکاری تعطیلات بھی کردی ہیں اوروقتا فوقتا تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں چھٹیاں کی گئی ہیں۔ اسموگ کے سنگین اثرات کی وجہ سے اس سے جلد سے جلد نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
حالیہ دنوں میں لاہور اسموگ سے متاثر ہونے والے شہروں میں سرفہرست رہا ہے۔ جہاں لوگوں کے لیے صاف ہوا میں سانس لینا بھی محال ہو چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی بدولت ہی لاہور کو رواں سال ہی آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا تھا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے کئی احتیاطی اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ اس فضائی آفت سے بچا جا سکے۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے ہر شہری اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلا اور اہم قدم ٹریفک کنٹرول ہے۔اگر لوگ ذاتی ذرائع آمدورفت کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیں تو ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کو فروغ دیا جائے، درختوں کو کاٹنے سے گریز کرنا چاہیے، گیسی آلات کےبجائے الیکٹرک آلات کو فوقیت دی جائے، غیر ضروری اور کم فاصلوں کے لیے گاڑیوں کے بجائے پیدل سفر کیا جائے، فیکٹریوں اور صنعتی کارخانوں میں دھوویں اور گیسوں کے اخراج کا مناسب حل تلاش کیا جائے اور کوئلہ کے ذیادہ استعمال سے گریز کیا جائے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے ماحول کو صاف کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی جاسکتی ہے۔
اسموگ انسانی صحت پر انتہائی ناقص اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے سنگین بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ فضا میں موجود سلفیٹ اور کاربن مونوآکسائیڈ کی بڑھتی مقدار گھٹن، سانس لینے میں دشواری، دل اور پھیپھڑوں کے علاوہ جلد اور گلے کی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے۔ عمررسیدہ افراد، حاملہ خواتین اور بچے کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سےذیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ذیادہ وقت اسموگ میں گزارنے کی وجہ سے طبی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ ان تمام امراض سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ شہری باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں اور بغیر کام کے گھر سے نہ نکلیں۔ آنکھوں کے لیے چشمہ کا استعمال کیا جائے۔ ذیادہ سے ذیادہ پانی پیئں اور گرم چائے کا استعمال کیا جائے۔گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔بازاروں ،گلیوں اور سڑکوں پربلاوجہ پھرنے سے اجتناب کریں۔ذیادہ ٹھنڈے مشروبات سے پرہیز کریں۔گھروں میں جنریٹر اور ذیادہ دھواں خارج کرنے والے آلات استعمال نہ کیے جائیں۔ اور گھروں کے باہر بھی گردوغبار اڑانے سے پرہیز کیا جائے۔ اگر ہر انسان ان اختیاطی تدابیر کو ذمہ دارانہ انداز میں ملحوظ خاطر رکھے گا تو یقینا چند ہی سالوں میں اس فضائی آلودگی پر قابو پالیا جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور ان تمام حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کریں تاکہ جلد از جلد اس بلا کا خاتمہ ممکن ہو۔