اردو ادب کا ایک عمدہ شاہکار مختار مسعود کی تصنیف ” آواز دوست” ہے۔ اس تصنیف کی جتنی تعریف کی جائے ، کم ہے۔ یہ تصنیف اپنے اندر کئی ایسے موضوعات سموئے ہوئے ہے جو اس سے قبل مضامین کا موضوع نہیں رہے۔ یہ ادب ، فلسفہ اور تاریخ کا وہ امتزاج ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس کتاب کے بارے میں چھت پھاڑ قسم کی تعریفیں ہوئیں ، بے شک یہ کتاب تعریف کے قابل بھی ہے۔جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں اور جتنا چاہیں سچ بول لیں ، دونوں چکر چل جائیں گے۔یہ گنجائش میں نے تو حسن آذاد کی کتاب "آب حیات ” میں دیکھی ہے یا پھر مختار مسعود کی کتاب ” آواذ دوست” میں۔ اس کتاب میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس کتاب کا نام رومی کے فارسی شعر سے لیا گیا ہے۔ دوسری خاص بات اس کا انتساب ہے۔ اس انتساب نے ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی اور اسے ماہرین ادب کی جانب سے بہت سراہا گیا۔یہاں سے اکتساب کا پورا سلسلہ قائم کردیا گیا۔
انتساب کچھ یوں ہے:
"پرکاہ اور پارہ سنگ کے نام
پرکاہ جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اگنے والی گھاس کی پہلی پتی ہے۔اور پارہ سنگ جو والد مرحوم کا لوح مزار ہے۔ "
اس کتاب کا دیباچہ اردو ادب کا مختصر ترین دیباچہ ہے۔ مگر ان چند جملوں میں مختار مسعود نے پوری کتاب کو بند کر دیا ہے۔ دیباچہ کچھ یوں ہے کہ:
"اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ایک طویل محتصر اور دوسرا طویل تر۔ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔فکر سے مراد فکرفردا ہے اور خون سے مراد خون تمنا۔”
250 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں دو ہی مرکزی مضامین ہیں۔ پہلا مینار پاکستان اور دوسرا قحط الرجال۔ پہلے مضمون میں اس مینارپاکستان کی روداد بیان کی گئی ہے اور اس کی بنیادوں میں سیمنٹ یا ریت کے بجائے تاریخ بھر دی گئی ہے۔ مختار مسعود نے بتایا ہے کہ حریت پسند لوگوں کا پرجوش غول ان بنیادوں کو کئی سال پہلے بنا چکا تھا ۔مختار مسعود ان پر چل کر یادوں کو تازہ کرتے ہیں اور تاریخ کے سنہری واقعات پیش کرتے ہیں۔ اس مضمون میں مینار کا تعمیری پس منظر اور اس کی تعمیر کے عمل کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔مختار مسعود کے مطابق مینار پاکستان کی تکمیل 1966 میں ہوئی ۔اس کا پہلا نام "یادگار پاکستان” رکھا گیا مگر جب لفظ یادگار سے موت اور فنا کا تصور ابھرا تو مختار مسعود کی تجویز پر اس کا نام "مینار پاکستان” رکھ دیا گیا۔ اس مضمون میں مختار نے دنیا کے مشہور میناروں کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ مثلا روشن مینار ، PISA مینار وغیرہ جس سے ان کے تاریخی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ مختار نے اس مضمون میں مینار کی تاریخی حیثیت پر بحث کی ہے ۔ ان کے مطابق مینار کی ابتدائی صورت ضروت کے تحت میں وجود میں آئی پھر اس کی علامتی حیثیت قائم کردی گئی اور اس کے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخرکار نشان خیر کے طور پر بنایا جانے لگا۔ مینار پاکستان بھی ان تمام حیثیتوں پر محیط ہے۔ اس مضمون میں تاریخی شخصیات کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور اشعار کا برمحل استعمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختار مسعود کا اسلوب اس مضمون میں عروج پر دکھائی دیتا ہے۔
کتاب کا دوسرا اور طویل تر مضمون "قحط الرجال ” ہے۔ یہاں قحط سے مراد ان لوگوں کا قحط ہے جن کے کندھوں پر قوم کھڑی ہے۔ اس مضمون کو ذہنی سفر نامہ ، رپوتارژ، خاکہ نگاری یا آٹوگراف البم کی کہانی کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں مختار نے عظیم لوگوں سے دستخط لیے اور اس البم کی کہانی پیش کی ہے۔باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تمام عمر نگہ انتخاب کو استعمال میں لاتے رہے ۔اور آٹوگراف البم کے کئی صفحات خالی رہ گئے۔ یہ مضمون 1972 میں مکمل ہوا۔ اس میں مختار نے اچھے لوگوں کی کمی شدت سے محسوس کی ہے۔ اس مضمون کی ابتدا میں عبرت آموز جملے ملتے ہیں جنھیں پڑھ کر دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس مضمون میں اس خوشخال زمانے کو یاد کرتے ہیں کہ جب قوم کو سہارا دینے والے ملاح ، جوک در جوک ساحل کے کنارے اپنی کشتیاں لیے کھڑے تھے۔ مختار ہر ملاح کے پاس اپنی آٹوگراف البم لے کر جاتے اور طوفان کی صورتحال میں اس کے بیڑے کا حال دریافت کرتے اور طوفان سے بیڑے کو نکالنے کے رہنما اصول ذہن نشین کرلیتے اور آٹوگراف لے کر اگلے بیڑے کی جانب بڑھ جاتے۔ مختار کی البم کے آدھے ورق پر ہوگئے اور سامنے بیڑے بھی ختم ہوگئے۔ اور تاحدنگاہ صرف سمندر کی وسعت دکھائی دی۔مختار نے اس مضمون کو قحط الجال کہہ کر پکارا۔ ان کے اعلی اسلوب کی مثال ان کے اس اقتباس سے ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں ذندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہوتو قحط ، اور حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔۔۔۔۔۔۔اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار ، مردم شناسی ہوتو نایاب۔”
اس کتاب کی تخلیق میں مختار مسعود اپنے فن کے عروج پر دکھائی دیتے ہیں۔ شاید ان کا کمال اسلوب ہی ہے جس کی وجہ سے یہ کتاب اردو ادب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے والے اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ اس عظیم تصنیف کی بدولت مختار ادبی دنیا میں ہمیشہ ذندہ رہیں گے۔