انسان کا اصل مقصد کیا ہے ؟

تجسس انسانی طبیعت کا خاصہ ہے ۔ انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے سفر کا آغاز چند سوالات سے ہوتا ہے کہ یہ دنیا کیوں بنا گئی ہے ؟ میرا اس دنیا میں مقصد کیا ہے ؟ مجھے اِدھر کیوں بھیجا گیا ہے ؟  یہ دونوں سوال اہم اور مشکل ہیں ۔ بہت سے فلاسفرز نے نے ان سوالت کے جواب دینے کی کوشش کی مگر کوئی موثر جواب نہ دے سکے ۔ ان کے جوابات میں کہیں نہ کہیں نفس کی رال ٹپک رہی ہوتی ہے ۔ وہ اپنے نفس سے باہر رہ کر سوچ ہی نہیں سکتے ہیں ۔ یہ انسان کی کمزوری ہے ۔ بہر حال اس میں پہلا سوال کہ دنیا کیوں بنائی گئی ہے ؟  قدر ِمشکل ہے ۔ اس سوال کا جواب جاننا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا  کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان کی اس دنیا میں غرض و غایت کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا اثر ہم پر مرتب ہوتا ہے ۔

یہ بات تو طے ہے کہ انسانی ذہن ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا ۔ اس کا بہتر جواب وہی دے سکتا ہے کہ جس نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا ۔ وہی بتا سکتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ لہذا اسی مناسبت سے سورۃ   الذاریات کی آیت نمبر 56 بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر جن و انس کی تخلیق کا مقصد بیان کر دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے جن و انس کو کسی اور  کی عبادت کرنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اپنی عبادت یعنی اللہ کی عبادت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے ۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں صرف جنات اور انسانوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے ۔ اس دنیا میں تو بیش بہا مخلوقات  ہیں ، ان سب کو مخاطب کیا جانا چاہیے تھا ۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جن و انس ہی وہ واحد مخلوق ہے کہ جس میں اختیار کا مادہ رکھا گیا ہے ۔ یعنی وہ   خیر ہو  یا شر دونوں  میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صرف جن و انس کو ہی مخاطب کیا ہے ۔ باقی مخلوقات تو از خود اللہ کی عبادت کرتی ہیں ۔ ان کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ۔ ان کے اندر ایک سافٹ وئیر ڈال دیا گیا ہے ۔وہ اسی کے مطابق چلتے یا کام کرتے ہیں ۔

اس آیت میں لفظ عبادت غور طلب ہے ۔ کیا عبادت کے معنی نماز روزے ہی کے ہیں ؟ یا عبادت   کے معنی میں وسعت ہے ؟ عبادت نکلا ہے عبد سے جس کے معنی غلام کے ہیں ۔ (قاموس الوحید ص1038) اصطلاحاً عبادت سے مراد اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کے ہیں ۔ ام المتکلم مولانا ایوب دہلوی ؒ نے عبادت کے عارفانہ معنی بیان کیے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ’’ عبادت سے مراد اللہ کے لیے مر مٹنا ‘‘، گویا اللہ کے لیے  انکساری کا معاملہ کرنا ہے  ۔ یہ وہ معنی    ہیں جن کا لغات میں ملنا محال ہے ۔ بہرحال عبادت سے مراد  اللہ کی فرمانبرداری  ہے ۔

یہ عبادت  پورے 24 گھنٹے کی ہے ۔یہاں عبادت سے مراد ہمہ تن اطاعت ہے ۔ زندگی کے  ہر گوشے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا اسی سے مدد طلب کرنا ۔ اسی سے مانگنا ۔ اسی کی پیروی کرنا ۔ اسی سے تقوی کرنا ۔ اسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ہے ۔

انسان بندگی کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتا ۔ اگر وہ خدا کی بندگی نہیں کر رہا تو یقیناً وہ کسی اور چیز کی بندگی کر رہا ہوگا ۔ وہ  نفس ہو سکتا ہے ، وہ مادہ ہو سکتا ہے ، وہ کوئی شخص بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان بے بندگی زندگی بسر کر ے۔  شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

زندگی آمد  برائے بندگی

زندگی بے بندگی شرمندگی

Leave a Comment