یہ بھی سفید پوش ڈاکو ہیں

کبھی آپنے محسوس کیا ہے کہ اشیاء کی قیمت میں ایک دم  اضافہ ہو جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیا ء بازاروں  میں سے اٹھا لی  جاتی ہیں اور پھر ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ چند نمایاں بازاروں میں وہ گراں قیمت پر فروخت کی جا رہی ہوتی ہیں ۔ جب دیکھا جاتا ہے کہ ہمارا ملک  اس قلت کا شکار کیسے  ہوا،  حالانکہ ہمارا ملک خورد و نوش کی اشیا دوسرے ممالک میں فروخت کرتا ہے ۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ بازار خورد و نوش کے سامان سے خالی ہیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ چندسفید پوش ڈاکوؤں نے ان اشیا  ءکی ذخیرہ اندو زی کر کے  قلت پیدا کی  ہے ۔ جس کی وجہ سے ان چیزوں کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔

ذخیرہ اندوزی کو عربی میں احتکار کہتے ہیں ۔ اس کے معنی ہیں کوئی چیز خرید کر رکھ لینا اور اسے اس غرض سے روکے رکھنا تاکہ قیمت بڑھنے پر  اسے بیچا جائے ۔ تمام فقہاء کے نزدیک  ، اس غرض سے احتکار کرنا کہ شہر میں قلت پیدا ہو اور لوگوں کو دشواری کا سامنا  کرنا پڑے ، اس صورت میں ذخیرہ اندوزی  جائز  نہیں ہے ۔

عموماً ذخیرہ اندوزی اسی  لیے کی جاتی ہے کہ اشیا ء کی قلت پیدا کرکے اسے مہنگے داموں فروخت کیا جائے ۔آپ ﷺ نے ایسے شخص کو  ملعون  قرار دیا ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص سامان فروخت کرنے کے لیے بازار میں لائے اس کو اللہ تعالی کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے او ر جو روک کر رکھے گرانی بڑھانے کے لیے وہ ملعون ہے ۔‘‘(مشکوۃ)  الغرض اس طریق پر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا مارکر اپنا محل تعمیر کرنا  قطعاً جائز اور حلال نہیں ہے ۔

حضرت عمرالفاروقؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ” جو شخص غلہ روک کر گراں قیمت پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے، اللہ تعالی اسے جزام و افلاس میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔”(ابن ماجہ،  شعیب الایمان) یعنی جو شخص یہ فعل مسلسل کرتا رہے اور اس سے بعض نہ آئے،  تو اللہ تعالی اسے الگ الگ امراض  کے پھندوں میں جکڑ لیتے ہیں ۔ وہ  جن بیماریوں  کے نام سے بھی واقف نہ تھا  ان بیماریوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ پھر ساری زندگی اس طوقِ ثقیل کے سہارے گزرتی ہے ۔ حتی کہ وہ دن آجاتا ہے کہ وہ شخص یہ دعا کرتا ہے  کہ اے میرے رب اس تکلیف سے بہتر ہے کہ تو مجھے اس سے نجات بخش (یعنی موت) ۔

احتکار ایک صورت میں جائز ہے کہ اس سے شہر میں اشیاء کی  قلت واقع نہ ہو ۔ اس کے علاوہ احتکار کن چیزوں کا جائز ہے ؟ اس پر آئمہ اربعہ اپنی الگ الگ رائے رکھتے ہیں ۔ بہر حال اس امر پر سب متفق ہیں کے احتکار کی یہ طرز کہ جو شہر میں قلت ِکثیر پیدا کر دے وہ جائز نہیں ۔

آج پوری دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام راج کر رہا ہے ۔ اس نظام میں انسان کو مکمل آزادی حاصل  ہے ۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز انسان کی مالک ِ مطلق ہے۔ وہ اسے جس طرح چاہے استعمال کرے ۔جہاں چاہے صَرف کرے ۔ اس کے برعکس اسلام کے نظام معیشت   میں ملکیت اصلاً اللہ عزوجل کی ہے۔ جس نے اسے وہ نعمت عطا کی ،  جس  کاوہ حق دار نہ تھا ۔ اور اس  کے علاوہ اس نعمت پر ا سے کچھ ختیار بھی دیا۔

ذرا بچپن  کےوہ  دن یاد کیجیے کہ جب والدین آپ کو سکول میں  کھانے پینے کے لیے چند پیسے دیا کرتے تھے ۔ اور اس کے ساتھ ایک نصیحت بھی کی جاتی تھی کہ فلاں چیز پر پیسے مت خرچ کرنا ، وہ چیز مت کھانا اور  یہ پیسے تمھیں دو دن  تک چلانے ہیں وغیرہ  ۔ پس  آپ اس وقت پلٹ کر یہ جواب دیتے کہ یہ میرے پیسے ہیں ،  میں جہاں چاہوں خرچ کروں اور  جو چاہوں کھاؤں کیونکہ یہ میری ملکیت ہے ۔ تو اس کے بعد جو آپ کے ساتھ ہوتا تھا وہ آج بھی آپ بھولے نہیں ہوں گے۔

اسی طرح اس اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے  کہ” جو کچھ  آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے۔”(سورۃ البقرۃ)  یعنی اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے ۔لہٰذا  اگر اللہ تعالی ہمارے مال پر کوئی پابندی عائد کرتے ہیں تو اس میں انسانوں کے لیے کوئی نہ کوئی خیر اور بھلائی کا پہلو ہوتا ہے ، ہم چونکہ اپنی کم علمی کے سبب اللہ کی حکمتوں کو سمجھ نہیں سکتے اس لیے ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے مالک کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیں، اور یہی بندگی کا تقاضا ہے ویسے بھی جس  کا مال ہے حق بھی اسی کا ہو نا چاہیے  ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالی  ارشاد فرماتے ہیں  ” اور کیا نہیں دیکھتے وہ کہ ہم نے بنا دئیے ان کے واسطے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں سے چو پائے پھر وہ ان کے مالک ہیں ۔” (یٰس :71)یعنی ہم نے انھیں نعمتیں عطا کیں اور انہیں کچھ اختیار کیا دیا  کہ اس پر مالک بن بیٹھے ۔ کیسے بے عقل ہیں  یہ کہ اس ذات کو بھول گئے کہ جو اصلاً سارے جہانوں کی نعمتوں کا تنہا مالک ہے۔

یہ اسلام کا نظریہ ملکیت ہے  ، جو سرمایہ دارانہ نظام  کی طرح خود مختار نہیں ۔ بلکہ اللہ تعالی کے احکامات کا پابند ہے ، لہذا جس طرح اللہ جل شانہُ نے دوسری چیزوں سے منع فرمایا ہے اس طرح ذخیرہ  اندوزی سے  بھی روکا ہے ۔  اور خدائے عزوجل کے احکامات کو بجا لانے میں ہی نوعِ انسانی کی فلاح ہے ۔

رضائے حق پہ راضی رہ یہ حرفِ آرزو کیسا؟

خدا خالق، خدا مالک، خدا کا حکم، تو کیسا؟

Leave a Comment