تصور کیجیے اگر اللہ تعالی انسان سے قوت بیان کی صلاحیت چھین لے، تو کیا ہو سکتا ہے ؟سوچیں کہ انسان کو کتنی مشکلات پیش آئیں گی ۔ انسان کے لیے اشاروں میں بات کرنا بےحد دشوار ثابت ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کو قوت ِ بیان عطا کی تاکہ وہ لوگوں سے تبادلہ خیال کر سکیں۔ اپنے خیالات ، سوچ اور جذبات کو لفظوں میں بدل کر لوگوں کے سامنے پیش کر سکے، تکہ لوگ اس کی بات سمجھ سکیں ۔ ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ رب نے ہمیں اس نعمت سے نوازا ہے۔
انسان جیسے ہی دنیا میں پھیلتا چلا گیا ۔ دور دراز علاقوں میں بسنا شروع کیا، تو کئی طرح کی زبانیں وجود میں آئیں ۔ لوگوں میں جب شعور پیدا ہوا ، علوم و فنون میں ترقی ہوئی اسی کے ساتھ ہی زبان میں بھی بڑی ترقی ہوئی ۔ لوگوں نے زبان میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اس کا بھر پور استعمال کر کے لوگوں کے افکار میں تبدیلی اور انقلاب برپا کیا۔ یعنی تقریر ، تصانیف اور ادب سے لوگوں کی فکر میں حرکت پیدا کی۔ آج تک زبانوں میں ترقی ہو رہی ہے۔
ہر قوم کی اپنی زبان ہے۔ اور یہی زبان اس کی پہچان بھی ہے ۔ زبان سے محبت نے قوم کو آسمان کی سیر بھی کرائی ہے ۔ اور جس قوم نے اس کی قدر نہیں کی ، تو اسے زمین پر بھی گرایا ہے۔ اگر کسی بھی قوم کو جا نچنا پڑے کہ وہ کس منزل کی جانب رواں ہے ۔ عروج کی جانب ہے یا زوال کی جانب ، تو اس کے کئی طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ اس قوم کے فرد کو دیکھ لیں کہ وہ اپنی زبان کو کتنی اہمیت دیتا ہے ۔ یعنی اس قوم کا رویہ اپنی زبان کے ساتھ کیا ہے ۔ بڑی بڑی قومیں جنہوں نے اپنی زبان کی عزت کی جس کی وجہ سے آج ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہ قومیں گمراہیوں میں مبتلا نہیں ہوئیں ۔ جب بھی ان پر زوال آیا ، وہ واپس اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئیں۔ جیسے جاپان ،چائنہ اور ترکی وغیرہ وغیرہ ۔ ترکی کی زبان کا رسم الخط باقی نہ رہا لیکن پھر بھی ان کی زبان بطور ِ بات چیت زندہ ہے ۔ ترکی کی مقبولیت میں چند وجوہات میں سے ایک وجہ ان کی زبان سے محبت ہے ۔ جو قومیں اپنی زبان کی قدر نہیں کرتیں وہ بلندیوں پر پرواز نہیں کر سکتیں۔ اسلاف کی کتابیں ، تہذیب اور روایات سب کا تعلق زبان سے ہے۔ یعنی زبان سے لا تعلقی برتی جائے تو گویا کہ اسلاف کی میراث کھو بیٹھے ۔ زبان کی اہمیت ، یہ ایک طویل موضوع ہے ۔ جن میں سے چند گنی چنی با تیں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔
اب جائزہ لیتے ہیں اپنی قوم کے لسانیاتی ماحول کا۔ جب سے انگریزوں کی غلامی ہمارے سر پڑی ہے، تب ہی سے ہمارا زوال شروع ہو چکا تھا ۔ اور اب تک ہم تیز رفتاری سے اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ انگریزوں نے سب سے پہلے ہماری زبان کو نشانہ بنایا اور ہم سے ہماری زبان چھینی۔ ہمیں ظاہر کرایا کہ "یہ کیا عجیب بولی بولتے ہو۔ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو ، تو انگریزی کو اپنی زبان کا حصہ بناؤ۔” لہذا انہوں نے انگریزی میڈیم اسکول قائم کیے ۔ جہاں پر انگریزی زبان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔وہ ایک میڈیم سیٹ کر گئے کہ بچہ ہونہار اسی سکول میں ہی بن سکتا ہے ۔ آج اگر کوئی بچہ انگریزی میں بات کرے اس کی واہ واہ !ہوتی ہے ۔ماں باپ اپنے بچے کو اس کی مثال دیتے ہیں ۔ گویا کہ ذہانت کا معیار اس پر ہے کہ وہ انگریزی بڑی فرفر بولتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ اردو اور نہ ہی انگریزی بولنے کے قابل رہتے ہیں۔ جب اردو بولنا شروع کرتے ہیں ،تو انگریزی الفاظ کا استعمال کرنے لگتے ہیں ۔اور جب انگریزی بولیں تو اردو کے استعمال کی کثرت ہونے لگتی ہے۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کیفیت انگریزی کم اردو کی سی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی بچے کی ایک زبان پکی نہیں ہوتی کہ اس کے سر دوسری زبان کا بوجھ لا دیا جاتا ہے ۔ اس میں نہ اس کی اردو بہتر ہوتی ہے اور نہ ہی انگریزی بہتر ہوتی ہے ۔ان اسکولوں کا رو ز گار چمک اٹھا ہے ۔انہیں دیکھے دوسروں نے بھی دکا ن لگا لی ،جس کی وجہ سے ان دکانوں کو چلانے کے لیے باقاعدہ بڑے پیمانے مارکیٹنگ کی جا رہی ہے ۔
زبان کی فروغ میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہوتا ہے۔ اگر وہ زبان تروڑ مروڑ رہا ہے، تو عوام بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔ آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ سوشل میڈیا پر اردو کا جنازہ نکل رہا ہے ،رسم الخط سے لوگوں کی بیزاری کہتے ہیں "بھائی صاحب ! اگر رومن اردو میں لکھا ہوتا ، تو پڑھنے میں زیادہ آسانی ہوتی۔” یہ ہے ہماری قوم کا کردار ہماری پیاری زبان اردو کو ساتھ ۔
آج اگر اردو زندہ ہے ،تو انہی مدارس ، ادیب اور ان تمام لوگوں کی بدولت ہے ۔ جنہوں نے اس کی قدر کی اور اسے اہمیت دی ۔یہ ان سب کا احسان ہے کہ انہوں نے اس کی حفاظت کی ،اسے قیمتی جانا اور فروغ دیا۔ ہماری اصل میراث کا تعلق اس زبان سے ہے۔ زیادہ تر ہماری تہذیبی اور مذہبی کتب اردو میں موجود ہیں ۔ جو ہمارے اقدار کی ترجمان ہیں ۔یہ ہے وہ اصل میراث ہمارے آبا کی ،جسے اقبال ؒنے یوں بیان کیا ہے:
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا سیپارا
زبان سے لا تعلقی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس ملک کی اکثریت نوجوان نسل ہماری تہذیب، مذہب اور خصو صاَ ہمارے اجتماعی اور انفرادی اقدار سے نا آشنا ہے۔مغربی لٹریچر سے جوں جوں ہمارا تعلق بڑھتا جارہا ہے ۔یوں ہی ان کی تہذیب اور ان کے اقدار ہمارے اندر منتقل ہوتے چلے جارہے ہیں۔جوایک فکر کن صورت حال ہے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ اردو کو فروغ دیا جائے ۔ سوشل میڈیا میں کچھ پوسٹ کریں، تو اردو رسم الحظ کا استعمال کریں۔اکثر لوگ اردو بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔یہ رویہ نہ رکھیں ۔ بلکہ فخر و مباہات کے ساتھ اردو بولیں ۔یہ آپ کی قومی اور مذہبی زبان ہے ۔ اگر آپ اپنی قوم اور مذہب سے محبت کا دعوی کرتے ہیں، تو اس زبان سے معاندانہ رویہ نہ رکھیں۔ اپنے ماحول کو ایسا بنادیں کہ ہر کسی کے لیے اس ماحول میں اردو سیکھنا اور بولنا آسان ہوجائے ۔ اردو سے اپناتعلق بحال کریں-