ہماری قوم ترقی کیوں نہیں کر رہی؟

دور حاضر میں علم کی روشنی گھر گھر پھیل چکی ہے ۔ آج یہ کہنا بے جا ہے کہ کوئی شخص علم سے محروم ہے ۔میرے خیال میں تو انسان کسی دور میں بھی علم سے  محروم نہیں  رہا ۔ ہر دور میں انسان علم حاصل کرتا رہا ہے اور اس کی روشنی سے فیض یا ب ہوتا رہا ہے ۔ البتہ فرد دُور ہے تو تعلیم سے  ہے ۔ آج بھی گاؤں اور دیہی علاقوں میں معیاری تعلیم کا فقدان ہے ۔ بہر حال انسان ہر لمحے علم کی تلاش میں سرگرداں  ہے۔ وہ انسان ہی کیا جو علم  حاصل نہ کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ وہ شعور رکھتا ہے۔

 ہمارے ہاں چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو سکول میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ ان کے ننھے کندھوں پر کتابوں کا بوجھ لاد  دیا جاتا ہے ۔ بہر کیف ہمارے ملک میں اسکولوں  اور کالجوں میں  بڑی تعداد میں طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں  ۔ اگراردگرد نظر دوڑائیں  تو ہر گلی میں ایک یا دو اسکول ضرور بضرور ملیں گے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اسکولوں اور کالجوں کی کمی نہیں  ہے۔ بلکہ کافی تعداد میں تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے کہ ان کا  علمی معیار کیا ہے۔ تعلیمی ادارے توبے شمار ہیں ، مگر تعلیم کا فقدان ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم ترقی نہیں کر رہی۔ ہماری قوم ابھی تک غلامی کے زنجیروں میں جھکڑی ہوئی ہے۔ جانے وہ وقت کب آئے گا کہ جب ہم  غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوں گے۔ اگرہم اپنےتعلیمی نظام پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ علم کا حصول مسئلہ نہیں ہے علم تو روشنی کی کرنوں کی طرح ہر جگہ لوگوں  تک  پہنچ رہا ہے ۔ اصل مسئلہ قوم کے ا فرا د ہیں ،جو اس روشنی کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کر ر ہے ہیں ۔  گویا علم تو ہر کوئی حاصل کر رہا ہے لیکن اس کا مقصد غلط ہے ، جو اسے علم کے بنیادی فوائد سے فیض یاب ہونے سے روک رہا ہے ۔

علم کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ انسان کو شعور کا احساس ہوجائے ۔ یعنی انسان با شعور بنے۔ علم  کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ  معرفت الہٰی  کا راستہ اختیار کرنے میں مدد حاصل ہو ۔ خدا اور فرد کے درمیان تعلق  مضبوط ہو۔ افسوس کہ آج کے دور میں علم کا مقصد بدل گیا ہے۔ ہمیں یہ علم نہ خدا سے جوڑ رہا ہے ، نہ اپنے آپ سے تعلق کو  مضبوط  کرنے کا سامان کر رہا ہے ۔ بلکہ یہ علم تو پوری طرح ہمیں اپنے آپ سے غافل کر رہا ہے ۔  جیسے میں نے پہلے عرض کی کہ اصل مسئلہ علم  کا حصول نہیں ہے بلکہ  اصل مسئلہ مقصد ِحصول ِعلم  ہے ۔

آج  علم کا مقصد یہ ہے کہ اس علم سے نوکری حاصل کی جائے ۔ بلکہ” اچھی نوکری "حاصل کی جائے ۔ دوسرا  مقصد کہ اس علم کو حاصل کرنے کے بعد اس کی نمائش کی جائے اور لوگوں پر اسے بھر پور جھاڑا جائے ۔ جو علم اس مقصد تک رسائی نہیں کرتا ، وہ علم بیکار اور بے معنی ہے ، چاہے لوگ اس کی افادیت کے گواہ ہوں۔  کیا اس مقصد کے بعد مسلم قوم دنیا فتح کر سکتی ہے؟ کیا وہ حق کا پر چار کر سکتی ہے ؟ جبکہ وہ اپنے آپ سے ، اپنے خدا سے غافل ہے۔  تو اس  قوم سے کیا امید رکھی جائے کہ وہ حق  کا جھنڈا گاڑے گی اور دنیا پر حق کو  نافذ کرے   گی ۔

کچھ ہی عرصے پہلے کی بات ہے کہ ماں باپ کی زبان  پر یہ الفاظ ہوتے تھے کہ ” بیٹا ،علم حاصل کر   تاکہ تو ایک اچھا انسان بن سکے "۔ اور آج یہ الفاظ بدل چکے ہیں اور اب کہتے ہیں کہ” بیٹا ، علم حاصل کر لے تاکہ تجھے اچھی نوکری مل جائے”۔ یہ بدلتے الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آج ہم اخلاقی پستی کی جس سطح پر کھڑے ہیں اس کے سب سےبڑے ذمہ دار ہم خود ہی  ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی نسل نو اور اپنی آنے والی کئی نسلوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ علم میراث ہے ، جو اپنی بنیادی روایات اور اپنے مقصد حیات کو اچھی طرح جاننے میں مددگار ہے۔ اگر ہم علم کو تعلیم اور شعور کے حصول کے لیے سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں گے تبھی ہم دنیا اور آخرت مین کامیاب ہوسکتے ہیں۔

Leave a Comment