دنیا بھر میں اللہ کی قدرت کے کرشمے نظر آتے ہیں۔ اور لاتعداد مقامات پر قدرت نے عجیب و غریب مظاہر سے انسان کو حیران کیا ہوا ہے۔ مختلف ممالک میں کئی ایسے عجیب اور اترنگ پہاڑ اور چٹانیں موجود ہیں جنہیں دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ انہی ممالک میں ایک اہم نام سعودی عرب کا ہے جہاں کئی پراسرار اور حیران کن پہاڑ یا چٹانیں پائی جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسانی آنکھ دنگ رہ جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے سعودی عرب کو لازوال قدرومنزلت سے نواز رکھا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ڈھیروں انواع و اقسام کے قدرتی مناظر سے بھی مالا مال کر دیا ہے۔ سعودی عرب صدیوں سے ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے جس کی بنیادی وجہ قبلہ و کعبہ اور روزہ رسول صلم ہے ۔حاص طور پر مسلمانوں کا سعودی عرب کے ساتھ دلی رشتہ قائم ہے اور سالہا سال زائرین کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ سعودیہ میں جانے والے زائرین کے لیے وہاں کے بلند و بالا پہاڑ اور عجیب و غریب شکل کی چٹانیں حیرت کا باعث بنتی ہیں۔
سعودیہ میں آئے دن کچھ نہ کچھ پراسرار چیزیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ، سعودی میڈیا اور ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ سعودی پہاڑوں پر اونٹوں کے پراسرار نقوش دریافت کیے گئے ہیں جو کہ بلند پہاڑوں پر کنندہ کر کے بنائے گئے ہیں۔ جس کے بارے میں برطانوی اخبار نے شائع کیا کہ یہ نقوش دو ہزار سال قبل بنائے گئے تھے جن میں سے بعض نامکمل ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ عجیب اور حیران کن بات یہ تھی کہ الجوف ایک صحرائی علاقہ ہے اور وہاں اس قسم کے نقوش یا باقیات ملنا ناممکن ہے۔ اسی عرصہ میں سعودی اور فرانسیسی ماہرین آثار قدیمہ کی مشترکہ کوششوں کی بدولت 56 مقامات پر ‘راک آرٹ’ دریافت کیا گیا جن میں الجوف اور تبوک بھی شامل ہیں۔ انہی پہاڑوں پر گدھے اور اونٹ کے مجسمے بھی کنندہ کیے گئے ہیں جوکہ اپنے آپ میں ایک منفرد بات ہے۔
سعودیہ کے مغربی علاقے تبوک کی صحرائی حدود میں پہاڑ سیاحوں کو اپنا گرویدہ بنا رہا ہے جس کی شکل بحری جہاز کی طرح ہے۔اس پہاڑ کا نام "جبل راسیا” یا "جبل السفینہ ” ہے۔ جس جگہ یہ پہاڑ واقع ہے وہاں سے قدیم دور میں تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے اور لوگ اپنی اپنی تہذیبوں کے نقوش اس پہاڑ پر چھوڑ جاتے تھے۔ اسی لیے اس پہاڑ پر عجیب طرز کے الفاظ و نقوش درج ہیں۔
تبوک کے ہی آس پاس ایک اور چٹان موجود ہے جس کی شکل وہیل مچھلی سے ملتی جلتی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرائی علاقے کے سردگرم موسمی بدلاو کی وجہ سے اکثر چٹانیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں اور پھر کچھ بے ڈھنگی شکلیں بن جاتی ہیں اور دور سے دیکھنے پر کسی جانور کی شکل کی شباہت محسوس ہوتی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور چٹان العلا سے کچھ کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود ہے جسے ہاتھی چٹان کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چٹان ہاتھی کی شکل سے مشابہ ہے۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہاتھی اپنی سونڈ سے زمین کو چھو رہا ہے۔ اور دور حاضر میں سیاح خصوصی طور پر اس چٹان کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
تیما کمشنری کے جنوبی علاقے جبل النصلتہ میں ایک اور حیرت انگیز چٹان موجود ہے جس کو دیکھ کر قدرت پر رشک آتا ہے۔ یہ دو چٹانیں بلکل ایک ساتھ کھڑی ہیں مگر دونوں کے درمیان ایک شگاف موجود ہے۔ان دونوں چٹانوں پر بہت سے نقوش کنندہ ہیں جن میں عام طور پر جانوروں پرندوں، اور مختلف رینگنے والے جانوروں کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ چٹان کے درمیان موجود شگاف کی وجہ سے علاقے میں کئی کہانیاں زبان زدعام ہیں۔ جن میں سے سب سے اہم دعوی یہ ہے کہ یہاں سے حضرت صالح کی اونٹنی برآمد ہوئی تھی۔ دیکھنے والوں کے لیے حیران کن اس لیے ہے کیونکہ یہ دونوں چٹانیں چھوٹی سی بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ لیکن اپنی جگہ پر سالم ہیں۔
اس کے علاوہ سعودیہ کے جنوبی علاقے میں ایسی چٹانیں پائی جاتی ہیں جن کو دیکھ کر انسانی شکلوں کا گمان گزرتا ہے۔ باحہ ریجن کے "جبل شدا” کی چٹانوں کو جیولوجیکل میوزیم کی حیثیت حاصل ہے۔اور یہ حوبصورت ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ قدرتی عوامل نے اس پہاڑ کی چٹانوں کو منفرد اور اترنگی بنا دیا ہے جوکہ مختلف شکلوں سے مانوس نظر آتی ہیں۔
اس طرح کی اور کئی چٹانیں ایسی ہیں جو زائرین اور سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز ہیں اور قدرت کا اعلی کرشمہ ہے۔