ایمانداری اور مسلمان

"دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے”  یہ جملہ آپ  نے کہیں بار سنا  ہے ۔ خطبات ، تقاریر اور عام گفتگو میں یہ جملہ عموماً استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کے ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ یعنی دینِ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے  کہ ایک مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ وہ اپنے روزمرہ کے معاملات کیسے حل کرتا ہے ، اس پر کن کن لوگوں کے حقوق ہیں اور کس کا کتنا حق ہے ۔  یہ سب اسلام ہمیں طوالت  کے ساتھ بیان کر تا ہے اور اس کی باقاعدہ ترغیب  بھی کرتا ہے ۔ ہر قدم پر اسلام ہماری کچھ نہ کچھ رہنمائی فرماتا ہے ۔ اسلام کے گوشہ معاشرت میں ایمانداری  کو خاصی فوقیت حاصل ہے   ۔ وہ ایمانداری کو ہی زندگی میں  راحت کا باعث سمجھتا ہے ۔معاشرے میں امن و سکون ایمانداری کے اصول پر عمل کر کے ہی ممکن ہے ۔

ایمانداری سے مراد وہ شخص جو سچا ہو ، امانت دار ، عہد کا پابند ، کسی کا حق نہ مارتا   ہو وغیرہ ۔ جو شخص ایماندار ہے،  وہی اصل مسلمان کہلانے کہ لائق ہے  ۔ جو شخص ایمان دار نہیں وہ اصلاً منافق ہے ۔ یعنی وہ منافقین کی راہ پر ہے ۔ احادیث میں منافقین کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔ حضرت ابو ہریرۃ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ” منافقین کی تین نشانیاں ہیں : جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے  اور جب وہ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ، اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جائے تو  وہ خیانت کرے ۔”(صحیح بخاری ، کتاب الایمان  حدیث نمبر: 33)   اس حدیث میں واضح الفاظوں میں یہ بات بیان کی گئی  ہے کہ یہ تین کام کسی مومن کا شیو نہیں ہیں  بلکہ یہ منافقین کا رویہ  ہے ۔  قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات شیشہ کی مانند واضح  ہو جاتی ہے کہ ایمانداری اسلام کا حصہ ہے ۔

 جھوٹ کے حوالے سے اسلام اس درجہ حساس ہے کہ مذاق میں بھی  جھوٹ بولنے پر وعید ہے ۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا  : "اس شخص کے لیے درد ناک عذاب ہے جو محض لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا  ہے ۔”( ابو داؤد کتاب الادب حدیث نمبر: 4990)    تمام باتیں ایک طرف صرف اس حدیث سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں جھوٹ بولنے والوں کے لیے کس قدر شدید عذاب ہے۔

آج کل یہ رویہ معاشرے میں عام  ہے کہ لوگ سرِ عام  جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں ۔ عدالتوں میں  ایسی گواہیوں کا ڈھیر ہے ۔ کوئی   ادارہ  ایسا  نہیں  جہاں جھوٹ کی آمیزش نہ ہو۔ اسلام میں جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دی گیا ہے ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے ، صحابہ اکرام سے فرمایا  کہ” کیا میں تم کو بتاؤں بڑے بڑے گناہ کون کون سے ہیں ؟” صحابہ اکرام نے عرض کیا  "یا رسول اللہ ﷺ! ضرور بتائیں ۔”آپﷺ نے فرمایا  "بڑے گناہ یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نا فرمانی کرنا ۔ اس وقت تک آپ  ٹیک لگائے بیٹھے تھے  آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور پھر فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینا شرک کے برابر ہے اور اس جملے کو تین بار دھرایا ۔”( صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر : 143)

جھوٹ ہمارے معاشرے کے اندر اس حد تک سرائت کر گیا ہے کہ ہمارے ادارے چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی دونوں اس سے محفوظ نہیں رہے ۔ ہر شخص اپنا محاسبہ کرے کہ وہ کس مقام پر کھڑا ہے ۔  ہمارے تاجروں کا حال دیکھ لیں ، سامان میں کوئی نقص ، ہو تو اسے ظاہر نہ کرنا اور اس کی زیادہ سے زیادہ تعریف کر کے اسے بیچنا ۔ حد تو یہ ہے کہ جب وہ نقص ظاہر ہو جائے اور کسٹمر وہ سامان واپس کرانے آئے،  تو وہ سامان نہیں لیا جاتا اور بہت سے تاجر حضرات   اس نقص کو قبول ہی نہیں کرتے ۔ بلکہ الٹا کسٹمر پر الزام تراشی کرتے ہیں ۔ اندازہ لگائیں  کہ آج انسان  کس حد تک  درندہ بن چکا ہے ۔ہم اس دروغ گوئی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہم اسے   برا ئی تسلیم کرنے کے لیے  تیار ہی نہیں  نہ ہی اس کے بغیر ہمارا گزار ہے ۔ کہا جاتا ہے  کہ ایک جھوٹ کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔ واقعی ، ایک جھوٹ کے لیے ہمیں کئی جھوٹ اس کی حفاظت میں  بولنے پڑتے ہیں۔

اسلام اس بات کی بھر پور تعلیم دیتا ہے کہ وعدہ خلافی نہ کی جائے بلکہ اسے پورا کیا جائے ۔ وعدے کئی  قسم کے ہو تے ہیں  کچھ عہد زبانی ہوتے ہیں اور کچھ عہد  لکھنے کی حد تک ہوتے ہیں  ۔ زبانی وعدے سے مراد کہ آپ نے اگر کسی سے زبانی وعدہ  کیا ہے کہ میں اس تا ریخ تک فلاں رقم جمع کرا دوں گا ، تو حتی الامکان اسے پورا کریں ۔ اور اگر اس عہد کور پورا کرنے کی قوت نہ رکھتے ہوں،  تو اس شخص سے جس سے آپ نے وعدہ کیا ہو، اس سے معذرت کر لیں ۔اسی طرح آپ اس ملک میں  مقیم ہیں ، تو با حیثیت باشندہ آپ نے اس ملک سے  کچھ عہدو پیما  کیے ہیں کہ آپ اس ملک کے تمام قوانین کی  ایمانداری کے ساتھ پاسداری کریں گے ۔ یعنی ٹریفک کے قوانین  وغیرہ کی پابندی کریں گے ۔ اسی طرح وہ وعدہ بھی یاد کیجیے جو آپ نے عالم برزخ میں اللہ سے کیا تھا۔ اللہ نے فرمایا تھا کہ” تمھارا رب کو ن ہے؟ ” تو عالم  برزخ میں موجود تمام انسانی  ارواح نے کہا تھا  "کیوں نہیں  آپ ہی ہمارے رب ہیں” ( سورۃ الاحزاب)۔اس عہد کو عہد الست کہتے ہیں ۔ آپ نے یہ  عہد کر کے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اللہ ہی آپ کا رب ہے ۔لہذا اب جو بھی حکم اللہ کی طرف سے آپ تک پہنچے ، آپ پر لازم ہے کہ اس حکم پر سر تسلیم خم کریں ۔

جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے  بے ایمان  و منافق امانت میں خیانت کرتا ہے ۔ جب بھی اس پر کوئی امانت سپر کی جائے تو وہ ہمیشہ اس میں خیانت کرتا ہے ۔ قرآن میں  بڑے تحکمانہ انداز میں  بیان کیا گیا ہے  کہ "اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ حق ان کے اہل تک اور ان کے محققین  تک پہنچاؤ "( سورۃ النساء آیت 58) ۔ آپﷺ کا کوئی ایسا خطبہ نہیں کہ جس میں آپ ﷺ نے یہ نہ فرمایا ہو کہ” جس کے اندر امانتداری  نہیں اس کے اندر ایمان  نہیں "(مسند احمد ) ۔  یعنی امانتداری اور ایمان کا آپس میں گہرا ربط ہے ۔

امانت سے مراد کیا ہے ؟ عوام الناس نے امانت کے مطلب کو سکیڑ دیا ہے ۔ حالانکہ اسلام میں امانت کا لفظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ امانت کا عمومی مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کسی کے پاس کوئی چیز  رکھوائی جائے ، تو وہ اس پر امانت ہے ۔ یہ امانت کا ایک مطلب ہے ۔ اصلاً امانت سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو دوسرے پر اس طرح سپر کی گئی ہو کہ سپرد کرنے والے نے  اس پر بھرو سہ کیا ہو کہ یہ اس کا حق ادا کرے گا ۔ یہ ہے امانت کی حقیقت ۔

 یہ زندگی  اللہ کی امانت ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہمارا ہر ایک عمل اللہ اور اس کے رسول  کی تعلیمات کے مطابق ہو ۔ اسی طرح ہمارا پورا کا پورا جسم  ،جس میں آنکھیں ، کان ، ہاتھ اور  پاؤں وغیرہ یہ سب شامل ہیں ،اللہ کی امانت ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان اعضا سے کوئی ایسا کام صادر نہ  ہو جو قرآن  و سنت کے  خلاف  ہو ۔  

اس تیز رفتار دور  میں ہر کوئی جلدی میں  ہے ۔ کوئی طالب علم ہے،  تو وہ جلد ہی امتحان میں اول آنا چاہتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کو جلد کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ایک تاجر جلد امیر ہونا چاہتا ہے ۔  اسی مقصد کے تحت پھر  تاجران  کو    طرح طرح کی ترکیبیں  سوجھتی ہیں ۔ کبھی وہ جھوٹ بول کر مال بیچتے ہیں ۔ کبھی وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ۔ اس بات سے  کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ حرام کما رہے ہیں یا کسی کا حق مار رہے ہیں ۔ ضروری یہ ہے کہ کتنا کما رہے ہیں ۔ قرآن میں سورۃ  المطففین کی ابتدائی آیات میں  صاف صاف یہ بات بیان کی گئی  ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنے  والا درد ناک عذاب سے نہیں بچ سکتا ۔ لہذا   اس پر خصوصی توجہ درکار ہے ۔ اسی طرح اسلام دھوکا بازی کرنے والوں کو  بھی پسند نہیں کرتا ۔آپﷺ نے فرمایا "جو دھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں اور مکر و فریب دوزخ میں لے جانے والی ہے ۔ "(المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر: 10234)

کسی عزیز نے  آپ  سے راز کی بات اس غرض   سے ذکر کی ہو کہ آپ اسے اپنے تک محدود رکھیں گے ۔ لیکن  آپ  اس  راز کی  حفاظت کرنے میں نا کام ہوئے اور دوسرے  شخص کو وہ  راز یہ کہہ کر بتا دیا  کہ وہ یہ راز کسی کو نہ  بتائے ۔ لیکن اس سے بھی نہ رہ پایا ۔اور اس نے بھی یہ بات آگے منتقل کر دی ۔ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ایک فرد  کا راز آپ پر امانت ہے اسے کسی تک پہنچا نا ،  امانت میں خیانت کرنا ہے ۔ افسوس کہ امانت کا یہ  تصور  آج ہمارے ذہن سے حذف ہو چکا ہے ۔

اسی طرح ہم اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ قرض لینے والے  جوق در جوق چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن دینے والے چند  ہی ہیں ۔ ہمارا دین اس بات پر زور دیتا ہے کہ جلد سے جلد قرض کی ادائگی کی جائے ۔ اسی طرح   حرم مال سے اجتناب کی بھی ترغیب دیتا  ہے  ۔ حلال روزی کمائی جائے ۔ کیونکہ حرام سے پلے ہوئے جسم کی عبادت ، حرام کمائی کا مال اور حرام کمانے والے کی دعا اللہ کی بار گاہ میں  قابل قبول نہیں ہے ۔

بہرحال،  اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے (آمین) ۔ ان تمام  آیاتِ قرآنیہ  اور احادیث  ِ نبوی ﷺ سے  اسلام میں ایمانداری کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ دینِ اسلام کی یہ  تعلیمات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ  نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج ہی دین کا حصہ نہیں  ہیں  ۔ بلکہ ایمانداری بھی   دین کا مکمل حصہ ہے ۔ معاشرے میں ایک بے سکونی ، بے چینی کی فضا قائم ہے ۔ اس کی اصل وجہ  جگر مراد آبادی کے ایک مشہور   شعر کے  مصرعہ ثانی   سے واضح  ہوتی ہے   ۔

گھٹ گئے انسان بڑ گئے سایہ

اس لیے آج  کے معاشرے کی سب سے  بڑی  ضرورت انسان ہے ۔

Leave a Comment